کتاب: محدث شمارہ 338 - صفحہ 8
عندیہ دیاجس پر ہالینڈ میں بحث مباحثہ شروع ہوگیا۔ حکومت کے مطابق ہالینڈ میں صرف ۱۰۰ خواتین برقعہ پہنتی ہیں اور ایک کڑوڑ ساٹھ لاکھ کی آبادی میں صرف ۶ فیصد مسلمان ہیں ۔ اندریں حالات حکومت کا یہ رویہ قبل از وقت حفاظتی اقدام اور منصوبہ بندی کے طورپر قرار دیا جاسکتاہے۔
فرانس میں پبلک مقامات پر سکارف پر پابندی کے بعد جرمنی اور ہالینڈ میں بھی یہ پابندی نافذ کردی گئی جبکہ امریکہ اور برطانیہ میں صورتحال آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہی ہے۔
٭ حال ہی میں فرانس میں یہ معاملہ سکول وکالج میں سکارف پر پابندی سے آگے بڑھ کر نقاب اور برقعہ کی پابندی تک بھی پہنچ گیا۔ فرانسیسی صدر نکولس سرکوزی ایک برس سے برقعہ کے بارے میں اپنے شدید جذبات کا اظہار کررہے ہیں اور ۲۰ جنوری ۲۰۱۰ء کو باقاعدہ فرنچ حکومت نے اس سمت پیش قدمی کا اعلان کردیا جس کے بعد سے یورپی ممالک میں ایک بار پھر یہ بحث تازہ اور بیانات کا سلسلہ جاری ہوگیا ہے۔ گذشتہ ماہ اپریل ۲۰۱۰ء کے وسط میں فرنچ حکومت نے سیاسی اور عالمی صورتحال کا جائزہ لینے کے بعد بل کو حتمی شکل دے لی اور آخرکار ۱۲ مئی کو فرانس کی پارلیمنٹ میں برقعہ کے خلاف قرار داد کو پیش کردیا گیا ہے۔
٭ اس سلسلے میں فرانس سے پہلے پیش قدمی کرتے ہوئے بلجیم نے۳۰/اپریل کو ہی ایوانِ زیریں میں ایسا ہی ایک بل پیش کیا ہے جہاں کسی اختلاف کے بغیر متفقہ طورپر برقعہ پر پابندی نافذکر دی گئی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ نقاب پہننا خواتین کی توہین اور شناخت کو چھپانے کی کوشش ہے۔ بل میں قرار دیا گیا ہے کہ خواتین کواپنی شناخت چھپانے کی اجازت نہ ہوگی۔ اگر پولیس کی اجازت کے بغیر ایسا کیا گیا تو ’مجرم‘ خاتون کو ۲۵ یورو یا ۷ یوم قید تک سزا ہوسکتی ہے۔اس سال جون میں یہ بلجیم کا ملکی قانون بن جائے گا اور بلجیم یورپی ممالک میں وہ پہلا ملک ہوگا جہاں برقع ونقاب پر پابندی عائد ہو گی۔ غور طلب امر یہ ہے کہ بلجیم کے سرکاری اعداد وشمار کے مطابق ۶ لاکھ مسلم آباد ی میں سے صرف ۳۰ خواتین برقع یا نقاب لیتی ہیں ۔ اس قانون سازی پر تنقید کرتے ہوے یورپی مسلمانوں کی تنظیم ’مسلم ایگزیکٹو آف بریٹن‘ نے اسے مسلم خواتین کی گھروں میں قید سے مماثلت دی ہے۔
3. فرانسیسی حکومت کی تین چار ماہ پر محیط تدابیر کے بعد آخر کار برقعہ اور نقاب پر پابندی کا