کتاب: محدث شمارہ 338 - صفحہ 79
سے جماعت کا پورا سینئر گروپ مولانا امین احسن اصلاحی رحمہ اللہ ، مولانا عبدالغفار حسن رحمہ اللہ ، مولانا عبدالرحیم اشرف رحمہ اللہ اور ڈاکٹر صاحب رحمہ اللہ سمیت جماعت ِاسلامی سے علیحدہ ہوگئے تو ان علم و عمل کے پیکر حضرات نے اپنے اپنے اَندازپردین و علم کے اِدارے قائم کئے۔ لاہور میں مولانا اصلاحی رحمہ اللہ اور ڈاکٹر صاحب رحمہ اللہ کے فہم قرآن کے پروگرام بڑے مقبول ہوئے توفیصل آباد میں مولانا عبدالرحیم اشرف رحمہ اللہ نے ’جامعہ تعلیماتِ اسلامیہ‘ کے نام سے مثالی دانش گاہ کا اجرا کیا۔مولانا عبدالغفار حسن رحمہ اللہ مختلف اوقات میں جامعہ سلفیہ، کلیہ دارالقرآن والحدیث،جامعہ تعلیماتِ اسلامیہ اور جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں تدریسی فرائض انجام دیتے رہے، لیکن ان تمام اشاعت ِدین کے گہواروں میں سے ڈاکٹر صاحب کی تنظیم اسلامی اورانجمن خدامُ القرآن کی شاخیں لاہور کے بعد ملک کے بڑے بڑے شہروں میں تشکیل پاتی رہیں ۔ انجمن خدام القرآن ماڈل ٹاؤن لاہور میں ہفتہ وار درس قرآن حکیم اور باغ جناح(لارنس روڈ) میں ان کے خطباتِ جمعہ سننے کے لیے دور و نزدیک سے لوگوں کا ایک جم غفیر کھینچا چلا آتا۔ یہ ان کی دینی تڑپ اور اخلاص کے مؤثر مظاہر ہیں ۔ ڈاکٹر صاحب ساہیوال سے جب لاہور منتقل ہوئے تو ان کی جگہ ہمارے مرحوم دوست مولانا حافظ عبدالحق صدیقی خطیب مقرر ہوئے جنہوں نے مقامی طور پر اور مرکزی سطح پر مرکزی جمعیت اہل حدیث پاکستان کی تبلیغ و تنظیم میں نمایاں کردار ادا کیا اوراہل حدیث کانفرنس میں اپنی خطابتی صلاحیتوں اور دبنگ ِفکر و نظر کا بھرپور مظاہرہ کیا۔ ۱۹۸۴ء میں ہمارے مرحوم دوست مولانا محمود احمد میرپوری کی دعوت پربرطانیہ جانے کامجھے اتفاق ہوا تو وہاں جاکر معلوم ہوا کہ برمنگھم کی سالانہ کانفرنس میں ڈاکٹر اسرار احمد بھی تشریف لارہے ہیں ۔ چنانچہ اس کانفرنس کی نشستوں میں اور بعد ازاں برطانیہ کے دوسرے شہروں لندن، مانچسٹر، ہیلی فیکس، اولڈہم، بریڈفورڈ اور ایسٹر وغیرہ میں مجھے تبلیغی اجتماعات میں ان کے ہم سفر رہنے کی سعادت حاصل رہی۔ ہمارے ساتھ حضرت پیر سید بدیع الدین شاہ راشدی مرحوم اور انڈیا سے مولانا مختار احمد ندوی مرحوم بھی شریک ِسفر تھے۔ ظاہر ہے کہ ان نامی گرامی مقررین اور قائدین ملت ِاسلامیہ کے خطابات، تقاریر اور بیان و کلام کے کس قدر اَثرات عوام وخواص پرہوسکتے ہیں ؟پورے برطانیہ کا ماحول ہمارے ان