کتاب: محدث شمارہ 338 - صفحہ 78
یادِ رفتگاں مولانامحمدیوسف اَنور٭ ڈاکٹر اسرار احمد بھی چل بسے… اِناﷲ! گذشتہ سے پیوستہ جمعتہ المبارک(۲/اپریل ۲۰۱۰ء) کی نمازِ مغرب کے بعد ہماری رہائش کے قریبی تعلیمی ادارہ اُمّ المدارس، گلبرگ (اے) میں ڈاکٹراسرار احمد مرحوم نے خطاب فرمایا۔ سکول کے صاحب ِذوق منتظم حافظ شعیب صاحب نے اسٹیج پر ڈاکٹر صاحب کے دائیں بائیں کرسیوں پر مجھے اور برادرم حافظ مسعود عالم حفظہ اللہ کو بٹھایا۔ ڈاکٹر صاحب نے معمول کے مطابق اپنی شعلہ نوائی سے حاضرین کو محظوظ فرمایا۔ معاشرے کے بگاڑ، بے چینی و اضطراب اور تجارت میں بڑھتے ہوئے سودی کاروبار اور اس کے تباہ کن معاشی اَثرات کا گہرا تجزیہ کرتے ہوئے ان تمام تر معاشرتی برائیوں کا حل قرآن و سنت کے’اقتصادی نظام‘ کے نفاذ کو قرار دیا۔ ڈاکٹر صاحب کی آواز میں طنطنہ اور جاہ و جلال تو بدستور تھا، لیکن خطاب کے بعد ان کی کمزور طبیعت اورکمر کی تکلیف نے مجھے پریشان سا کردیا۔ کسے معلوم تھا کہ یہ ان سے آخری ملاقات اور سماعت ہوگی… إناﷲ وإنا الیہ راجعون! ڈاکٹر صاحب ایم بی بی ایس ڈاکٹر اور اسلامیات کے سکالر تو تھے ہی، لیکن بہت کم لوگوں کو یہ معلوم ہے کہ وہ نہ صرف اہل حدیث کے امتیازی مسائل کی ترجیح کے قائل تھے بلکہ زیادہ تر اپنی خلوت میں وہ ان پر عمل پیرا بھی ہوتے۔ اسی بنا پر وہ جامع مسجد اہل حدیث ساہیوال کے کسی زمانے میں خطیب رہے تھے۔ ان دِنوں وہ اہل حدیث کے جماعتی جلسوں اور کانفرنسوں میں شمولیت بھی فرماتے رہتے۔ جمعیت تبلیغ اہل حدیث، ملتان کی سالانہ کانفرنس باغ،عام و خاص کے موقعوں پر ہر سال ان سے ایک دو روز رفاقت رہتی، تاہم وہ ذ ہنی و فکری طور پر جماعت ِاسلامی سے منسلک تھے۔ پھر مولانا مودودی مرحوم سے انتخابی سیاست میں حصہ لینے کے مسئلہ پراختلاف کی وجہ ٭ امیر مرکزی جمعیت اہل حدیث ، ضلع فیصل آباد