کتاب: محدث شمارہ 338 - صفحہ 77
میں دفن کے لیے لے جایا گیا۔ مولانا کے جسد ِخاکی کو قبر میں ڈالا جارہا تھا، لوگ ڈبڈباتی آنکھوں سے مولانا کے جسد ِخاکی کو قبر میں اُترتا دیکھ رہے تھے۔ آخر کار قبر پر مٹی ڈال دی گئی، مٹی کے نیچے میت چھپ چکی تھی، لوگ مٹی کی طرف حسرت وغم سے دیکھ رہے تھے گویا قبر کی مٹی سے شکوہ کررہے ہوں اور کہہ رہے ہوں ۔ع مقدور ہو تو خاک سے پوچھوں کہ اے لئیم! تو نے وہ گنج ہائے گراں مایہ کیا کیے مولاناکی قبر پر مٹی ڈال دی گئی۔محترم عبدالسلام بھٹوی 4.نے قبر پر رقت آمیز الفاظ سے دعا کروائی۔ دعا کے بعد لوگ مولانا کے غم میں نڈھال قدموں سے واپس ہولیے۔ع آسماں تیری لحد پر شبنم فشانی کرے سبزہ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے واپسی پر میں سوچ رہا تھا کہ قحط الرجال کے اس زمانے میں ان جیسے لوگوں کا موجود ہونا کسی قدر غنیمت ہے، لیکن یہ لوگ بھی آہستہ آہستہ دنیا سے رخصت ہورہے ہیں ۔ع جو بادہ کش تھے پرانے وہ اُٹھتے جاتے ہیں کہیں سے آبِ بقاے دوام لے ساقی مولانا عزیز زبیدی جیسی ہستیاں روز روز پیدا نہیں ہوتیں ۔ آج ہم علم وتربیت کے اُفق پر نظر دوڑاتے ہیں تو مولانا جیسی شخصیت کہیں نظر نہیں آتی۔ امام ذہبی رحمہ اللہ کے الفاظ اس موقع پر صادق آتے ہیں کہ ’’أین العلم وأین أھلہ ما کدت أن أرٰی العلم إلا في کتاب أو تحت تراب‘‘ یقینا مولانا کی وفات موت العالِم موت العالَم کے مصداق تھی۔ مولانا صاحب علم وفضل اور اہل دانش وبینش تھے۔ آپ سراپا ہنگامہ، سراپا سعی مسلسل، رواں دواں ، پیکر ِعلم و عمل، انجمن پسند اور اپنی ذات میں خود ایک انجمن تھے۔ ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہیں جسے ٭……٭……٭