کتاب: محدث شمارہ 338 - صفحہ 76
مولانا کی ان خدمات کو دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ یہ اللہ کی دین ہے، جسے چاہے عطا کرے۔ اللہ تعالیٰ نے مرحوم کو توفیق بخشی اور اپنے دین کا کام لے لیا۔ع
این سعادت بزورِ بازو نیست
تانہ بخشد خداے بخشندہ
علم و عرفان کے ماہِ کامل کا غروب
مولانا واربرٹن سے زخمی دل کے ساتھ لاہور منتقل ہوئے تھے اور یہاں بھی مولانا کو ان جیسے معاملات کا ہی سامنا کرنا پڑا۔ واربرٹن میں کاروباری معاملات میں آپ ایک بھاری رقم کھو بیٹھے تھے۔ کسی کو بیٹا بنا کر ہزاروں روپے دیئے کہ کاروبار کرے، لیکن اس نے مولانا کو رقم واپس نہ کی اور یہاں لاہور میں بھی مولانا نے کسی کو ۷۰ ،۸۰ ہزار روپے کاروبار کے لیے دیئے اور وہ آدمی بھی مولانا کو جل دے گیا۔ ۱۹۹۰ء میں مولانا سر کے عارضہ میں مبتلا ہوگئے اور ساری جمع پونجی اپنی بیماری پر لگا بیٹھے لیکن ع مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی!
مولانا ذ ہنی طور پر لوگوں کے ستائے ہوئے تو پہلے ہی تھے، بیماری نے آپ کو نچوڑ کر رکھ دیا تھا۔ اکثر گھر پر رہتے، کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوگئے، اِکا دُکا لوگ جو واربرٹن میں ان کے شاگرد رہے تھے،حق شاگردی اَدا کرنے کے لیے وقتاً فوقتاً مالی تعاون کرجاتے۔ اس کے علاوہ لاہور میں کچھ مسلک اہلحدیث سے تعلق رکھنے والے احباب خیال کرلیتے اور پھر آخری تین چار سالوں میں یہ سلسلہ بھی برائے نام رہ گیا تھا۔مولانا انتہائی لاغر ہوچکے تھے بیماری تھی کہ تھمنے کا نام نہیں لے رہی تھی۔ مولانا کی بیماری عرصہ تین سال سے شدت اختیارکرچکی تھی، ڈاکٹر مولانا کے علاج سے عاجز آچکے تھے اور آخر کار ۲۷/ مئی ۲۰۰۳ء بروز منگل صبح ۳ بجے علم و عرفان کے ماہ کامل کا غروب ہوگیا۔ إناﷲ وإنا إلیہ راجعون
مولانا کو وہی کھدر کا کفن پہنایا گیاجو وہ آج سے ۴۰ سال پہلے اپنے لیے تجویز کرگئے تھے۔ نمازِ جنازہ مولانا عبدالرشید مجاہد آبادی نے پڑھائی۔ جنازہ میں علماکی کثیر تعداد نے شرکت کی۔راقم ادارہ ’محدث‘ کے ساتھیوں کے ہمراہ ذرا لیٹ پہنچا،جنازہ ہوچکا تھا۔ چنانچہ دوبارہ جنازہ پڑھایا گیا جو مولاناعبدالسلام فتح پوری نے پڑھایا۔ آپ کی میت کو قریبی قبرستان