کتاب: محدث شمارہ 338 - صفحہ 73
تعلیقات کا ایک منصوبہ بنایا جس کی ابتدا صحیح بخاری شریف سے کی گئی۔مذکورہ دونوں بزرگوں نے مولانا محمدعطاء اللہ حنیف رحمہ اللہ سے اس منصوبے کا ذکر کیا اور اس کی ذمہ داری بھی ان کو سونپ دی،لیکن مولانابھوجیانی نے خود کام کرنے کی بجائے مرحوم مولانا زبیدی سے مشاورت کے بعد انہی کا نام تجویز کیا۔ پروگرام یہ تھا کہ مولانا کے تکمیل حواشی کے بعد مولانا بھوجیانی اپنی نگرانی میں اصحابِ علم سے اس پر نظرثانی کرواتے،لیکن ۱۹۸۲ء میں مولانا پر فالج کا حملہ ہونے کے بعد وہ پروگرام دھرے کا دھرا رہ گیا۔ پھر مولانااشبال اور مرحوم محمود باحاذق سے مشورہ کرکے نظرثانی کے لیے سارا مسودہ جامعہ سلفیہ بنارس بھیج دیا کہ تعلیقات میں تدریسی مشکلات کا حل اور تجربہ ضروری تھا۔ راقم الحروف کا کئی سال بعد جب ۱۹۹۲ء میں جامعہ سلفیہ بنارس جانا ہوا تو وہاں مشورہ ہوا کہ مولانا زبیدی بطور تحشیہ نگار بعض دوسرے اصحابِ علم کے نام کی اجازت دیں تو تب یہ کام جلد ہوجائے گا۔ راقم الحروف نے واپس آکر جب مولانا سے عرض کیا تو مولانا نے بلا تامل تحریر لکھ دی جو جامعہ سلفیہ بنارس روانہ کردی گئی، لیکن افسوس کہ یہ قیمتی چیز ابھی تک منصہ شہود پر نہیں آسکی۔ ‘‘ (الاعتصام: ۳۰ مئی ۲۰۰۳ء) اصل میں یہ تعلیقات مولانا سہارنپوری حنفی کے مقابلہ میں لکھی گئی تھی چونکہ مدارس میں داخل نصاب بخاری شریف اُنہیں کے حاشیہ سے پڑھائی جاتی تھی جس میں مولانا سہارنپوری نے حنفی مسلک کو بھی جابجا ترجیح دی تھی۔ اشد ضرورت تھی کہ اس کی جگہ بخاری شریف پر سلفی تعلیقات چڑھائی جائیں تاکہ اَحادیث ِ بخاری کامستند مفہوم سمجھا جاسکے۔ یاد رہے کہ ان تعلیقات کے مخطوط کی فوٹو کاپی ادارہ محدث میں موجود ہے جو پانچ جلدوں پرمشتمل ہے۔مولانا نیتعلیقات کا کام ۱۹۸۴ء میں ان الفاظ سے ختم کیا : ’’وقد فرغت من شوید ھذہ التعلیقات علی الصحیح المعروف بالجامع المسند الصحیح المختصر من أمور رسول اﷲ! وسننہ وأیامہ وتسطیرھا في رجب یوم الإثنین۱۳۰۳ھـ عند أذان الصبح حامدًا ومصلیًا و مسلمًا‘‘ ( ۲۵ رجب ۱۴۰۴ھ، ۲۲/اپریل ۱۹۸۴ء) ۱۹۸۴ء میں اس تعلیق بخاری کی تقریب ِتکمیل منڈی واربرٹن کی غلہ منڈی میں ملت کمیشن شاپ کے قریب منعقد ہوئی جس میں میاں فضل حق،مولانا عبدالرحمن کیلانی اور دوسرے اہل علم شامل ہوئے۔ اس تقریب میں علما نے مولانا کی اس کاوش کو سراہااور اہلحدیث مسلک کے