کتاب: محدث شمارہ 338 - صفحہ 71
گیاجبکہ ہم نے اپنے سامنے چائے کے ساتھ برفی بھی رکھ لی۔ مولانا نے جب یہ دیکھا تو کہنے لگے: واہ بھئی مجھے صرف چائے پلا رہے ہو اور خود ساتھ برفی بھی اُڑاؤ گے۔میں نے کہا مولانامیں نے تو پہلے ہی آپ سے پوچھا تھا کہ آپ مشرک چائے پئیں گے یاموحد تو آپ نے موحد چائے کا مطالبہ کیا، لہٰذا ہم نے تو مشرک چائے پینی تھی، سو برفی بھی شریک کرلی۔ آپ کے مطالبہ کے مطابق آپ کواکیلی چائے دی گئی ہے۔ مولانا برجستہ بولے: اچھا اچھا میں بھی کہوں کہ لوگ شرک کیوں کرتے ہیں ، آج پتہ چلا شرک بہت لذیذ ہوتا ہے۔‘‘
اسی طرح مولانا عبدالغفور کیلانی صاحب مولانا کا ایک واقعہ یوں ذکر کرتے ہیں کہ
’’اس وقت میں ادارہ’محدث‘ میں کتابت کرتا تھا اور مولانا صاحب چونکہ محدث رسالہ میں لکھتے بھی تھے، لہٰذا ایک دن وہ وہیں تھے کہ حافظ عبدالرحمن مدنی صاحب کے گھر سے کھانا آیا۔ مولانا نے کھانا شروع کیا تو چونک پڑے۔ دراصل کھانے میں نمک زیادہ تھا۔ بولے: ارے بھئی! ان گھر والوں سے کہو کہ مجھے تو پہلے ہی آپ کا نمک خوار ہونے کا اعتراف ہے مزید نمک کیوں کھلا رہے ہیں ۔‘‘
ایک دفعہ راقم کا مولانا کے پاس لاہور جانا ہوا۔ میرے ساتھ جامعہ محمدیہ لوکوورکشاپ کے اُستاد محترم عطاء الرحمن تھے جو کہ مولانا کے شاگرد تھے۔عطاء الرحمن نے مولانا کا حال پوچھا تو مولانا مسکرا دیئے اور یہ شعر پڑھا ؎
ان کے دیکھے سے جو آجاتی ہے منہ پر رونق
وہ سمجھتے ہیں کہ بیمار کا حال اچھا ہے
مولانا کی جب بھی رگِ ظرافت پھڑکتی تو ایسے علمی چٹکلے چھوڑتے کہ پوری مجلس کشت زعفران بن جاتی، لیکن کبھی ظرافت میں بے اعتدالی نہیں برتی۔
مولانا کی لاہور منتقلی
مولانا جہاں واربرٹن میں ہردلعزیز تھے اور سینکڑوں لوگ آپ کے مداح تھے، وہاں آپ کے حاسدین کی بھی کمی نہ تھی۔لہٰذا اس مردِ عفیف کے ساتھ بھی وہی ہوا جو عام طور پر حاسدین کی طرف سے ہوتا ہے۔ آپ پر کسی عورت کے ساتھ معاشقہ کا الزام لگایا گیااور اس پر اس قدر شور مچایا گیا کہ الأمان والحفیظ !!