کتاب: محدث شمارہ 338 - صفحہ 70
اُنہوں نے چھوا تک نہیں ہوتا، لیکن راقم کو مولانا کی کتابیں جو وہ مختلف اداروں کووقف کرچکے تھے کو دیکھنے کا موقع ملا اور تقریباً ہر کتاب پر مولانا نے حاشیہ لگایا ہوا تھا جس کا مطلب ہے کہ مولانا نے یہ کتاب اچھی طرح پڑھ رکھی تھی۔بلا شبہ آپ علمی دنیا میں ادیب، عالم، محقق، مصنف اور ایک عظیم سکالر کی حیثیت سے جانے جاتے تھے۔ ظرافت ِطبع سنجیدگی کی اَچھائیاں اپنی جگہ مگر اس کے ساتھ ساتھ انسان کے اندر ظرافت کا مادہ ہونا ضروری ہے۔ مولانا جہاں سنجیدہ مزاج کے حامل تھے، وہاں ان کی شخصیت میں ظرافت کا عنصر بھی موجود تھا اور بذلہ سنجی اکثر طور اس وقت فرماتے جب دوست احباب کی مجلس میں ہوتے یا پھر اپنے شاگردوں کی اُکتاہٹ دور کرنے کے لیے کوئی ایسا چٹکلہ سنا دیتے کہ شاگرد خوش ہوجاتا۔زبیر سپرا (مولانا کے شاگرد)کہتے ہیں : ’’زبیدی صاحب میرے اُستاد بھی تھے اور دوست بھی، مزاح ان کی رگ رگ میں بھرا ہوا تھا جب بھی سمجھتے کہ میں اُکتا گیا ہوں ، کوئی ایسا بھڑکتا ہوالطیفہ سنا دیتے یا ایسی بات کہہ دیتے کہ میں نہ صرف اس اُکتاہٹ سے باہر آجاتا بلکہ طبیعت میں ہلکا پن آجاتا۔‘‘ مولانا کلاس میں از راہِ مزاح اپنے ڈیڑھ فٹ کے ڈنڈے کو لہرا کر کہتے: بچو! یہ دیکھو یہ میرا سانپ ہے اور میں اسے روزانہ پاؤ دودھ پلاتا ہوں جو سبق یاد نہیں کرے گا پھر یہ اس کو پکڑے گا۔ آپ کے چٹکلوں میں بعض دفعہ علمی نکتے بھی ہوتے جو آپ لوگوں کو عام فہم طور پر سمجھا جاتے۔ آپ اکثر گھر کے قریب عظیم سیال (مرحوم) کی دکان پر کچھ وقت نکال کر بیٹھ جاتے۔ دوست احباب و معتقدین آپ کی باتیں سننے کے لیے وہاں پہلے سے موجود ہوتے۔ عظیم سیال (مرحوم) کے بیٹے سلطان ٹیپو جوکہ مولانا کے شاگرد رہے ہیں ، کہتے ہیں کہ ’’ ایک دفعہ حسب معمول مولانا میرے پاس تشریف لائے تو میرے پاس کچھ اور لوگ بھی بیٹھے ہوئے تھے میں نے مولانا سے پوچھا کہ مولانا چائے پئیں گے؟ بولے: کیوں نہیں ۔ میں نے ازراہِ تفنن کہا: مولانا! مشرک چائے پسند کریں یا مؤحد۔کہنے لگے: بھئی موحد چائے پیوں گا۔مشرک چائے کو کون پوچھتا ہے؟ میں نے ان کے لیے چائے منگوائی اور باقی ساتھیوں کے لیے چائے کے ساتھ برفی بھی منگوالی۔ مولانا کے آگے صرف چائے کا کپ رکھ دیا