کتاب: محدث شمارہ 338 - صفحہ 7
دیا کہ سکولوں میں مذہبی تفریق کی اجازت نہیں ہے اور مسکوجی پبلک سکول ایسا کوئی قانون نافذ نہیں کرسکتا جس سے کسی کے ذاتی حقوق یا آزادی سلب ہوتی ہو۔ ٭ فرانس میں حجاب وسکارف پر لگنے والی پابندی کے بعد یہ سلسلہ جرمنی تک دراز ہوگیا اور اپریل۲۰۰۴ء میں شمالی جرمنی کی ۷ ریاستوں بہ شمول بدین ، ویور ٹمبرگ وغیرہ میں خواتین کے سر ڈھانپنے پر پابندی عائد کر دی گئی۔ جرمنی میں اس پابندی کا پس منظر ۹۹۸اء میں فرشتے لودن نامی ایک مسلم خاتون کو حجاب کی بنا پر ملازمت سے انکار کی صورت میں شروع ہوا تھا، جس پر جرمنی کی سب سے بڑی عدالت نے یہ قرار دیا کہ اگر حجاب کے ذریعے لوگوں پر غلط تاثرات قائم ہوئے تو حکومت حجاب پر پابندی عائد کرسکتی ہے۔ جرمنی میں حجاب کے خلاف تعصب شدید صورتحال اختیار کرچکا ہے، جس کے نتیجے میں ایک بدترین المیہ رونما ہوا۔ یکم جولائی ۲۰۰۹ء کو جرمنی کی ایک عدالت میں ایک مسلم مصر نژاد خاتون مروۃ شربینی اپنے خاوند عکاظ علوی کے ہمراہ داد رسی کے لئے آئی تھی۔ایگزل نامی جرمن نوجوان نے اس کے حجاب پہننے پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف گستاخانہ جملے کسے او رکہاتھا کہ اگر میرا بس چلے تو میں تمہیں حجاب کی ایسی سزا دوں کہ ہمیشہ یاد رہے۔ عدالت نے جرم ثابت ہونے پر ایگزل کے خلاف فیصلہ دیا تو اس نے مروۃ شربینی (جو چار ماہ کی حاملہ بھی تھی) پر حملہ کردیا او راس پر چاقو سے شدید وار کئے، اس کے پیٹ پر پولیس اور جیوری کی موجودگی میں ٹھڈے مارے جس سے یہ مسلم خاتون موقع پر ہی شہید ہوگئی۔ اس کے خاوند نے ایگزل کو روکنے کی کوشش کی تو عکاظ پر متعصب جرمن پولیس نے فائرنگ کردی۔ یہ سارا سانحہ عدالت میں ہی رونما ہوا۔ مغربی میڈیا میں اس خبر کو سامنے نہ آنے دیا گیا، مروۃ کی میت جب مصر کے شہر سکندریہ پہنچی تومصری میڈیا نے پورے واقعے کی تحقیقات کرکے اسے شائع کیا۔ مروۃ شربینی کو حجاب کے لئے اس کی بے مثال قربانی کی بنا پر’شہیدہ حجاب‘ کا لقب دیا گیا۔ ٭ برطانیہ جیسی صورتحال کا سامنا گذشتہ سالوں میں ہالینڈ کو بھی رہا ہے۔ جہاں برطانوی وزیر خارجہ جیک سٹرا کی طرح ولندیزی وزیر امیگریشن ریٹا وردنک نے ۲۰۰۶ء میں حکومت کے سامنے یہ تحریک پیش کی کہ باہمی عزت کے لئے مردو خواتین کا ایک دوسرے کو دیکھنا انتہائی ضروری سماجی تقاضا ہے۔ وردنک کی تحریک پر ولندیزی حکومت نے برقع پر پابندی لگانے کا