کتاب: محدث شمارہ 338 - صفحہ 69
مولانامسلک ِ اہلحدیث کی ترویج کے لیے ہر وقت کوشاں رہتے، اس کااندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ ڈاکٹرعمرحیات(مولانا کے شاگرد) کہتے ہیں کہ کلاس میں مولانا زبیدی ہمیں نماز سکھلاتے تو اس کے لیے کسی لڑکے کو ڈیسک پرکھڑا کردیتے اور مجھے ابھی تک یاد ہے کہ اَنوربزاز(مرحوم) کو ڈیسک پرکھڑا کرکے کہتے کہ ان کو نماز سکھلاؤ اور وہ نماز باقاعدہ اہلحدیثوں والی نماز ہوتی۔ بہرحال مولانانے واربرٹن میں ۳۵ سال کے طویل عرصے میں مسلک ِاہلحدیث کے لیے اخلاص کے ساتھ کام کیا اور اس مشن میں اپنی ملازمت کو بھی آڑے نہ آنے دیا۔ مولانا ؛ ایک علم دوست انسان مولانا ایک علم دوست انسان تھے، مطالعہ کے از حد شوقین تھے۔ ہر وقت کچھ نہ کچھ پڑھتے یالکھتے رہتے۔علم حاصل کرنے کا شوق آخر تک اتنا رہا کہ منڈی واربرٹن میں غلہ منڈی والی مسجد کے خطیب مولانا نور محمد جو کہ بریلوی مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے تھے،سے قدوری پڑھنے جاتے۔ ان کی بے حد تکریم کرتے یہاں تک کہ جب وہ بیماری کی وجہ سے نڈھال ہوگئے تو ان کی منہ سے بہنے والی رال اپنے ہاتھ سے پونچھتے اور کہتے کہ ’’اہل علم کی قدر کرو۔‘‘ مولانا کومطالعہ و تحقیق کا جنون کی حد تک شوق تھا اور اس شوق کو پورا کرنے کے لیے اپنے پاس ہزاروں کتابیں جمع کررکھی تھیں ۔یہ کتابیں وہ طالب ِعلمی کے زمانے سے اکٹھی کررہے تھے۔کتابوں کے خریدنے کا اس قدر شوق تھا کہ اپنی پاکٹ منی کو جمع کرکے کتاب خرید لیتے اور یہ کتابیں آپ کے گھر میں اس قدر جگہ گھیرے ہوئے تھیں کہ کوئی ایسی جگہ جہاں پر کچھ کتابیں ٹک سکتی تھیں ، آخر وہ ان کتابوں کی زد میں آجاتی۔ آپا جی(مولانا کی بیوی)آپ سے شکایت کرتیں کہ گھر کے برتن کہاں رکھے جائیں ۔پروفیسر نعیم (مولانا کے شاگرد) کہتے ہیں کہ ’’آپ نے ان کو اس بات پر قائل کرلیا تھا کہ ضرورت کے برتن کچن میں رہیں اور باقی سب برتن ہم بوریوں میں بند کردیتے ہیں اور پھر ایسا ہی ہوا۔‘‘ آپ ان کتابوں کے مطالعہ میں غرق رہتے، یہی وجہ ہے کہ آپ مختلف مکاتب ِفکر کی خوبیوں اور خامیوں سے اچھی طرح آگاہ تھے۔اکثر یہی ہوتا ہے کہ لوگ علمی رعب و دبدبہ کے لیے اپنے پاس کتابوں کا ڈھیر تو لگا لیتے ہیں ، لیکن ان میں اکثر کتابیں ایسی ہوتی ہیں جن کو