کتاب: محدث شمارہ 338 - صفحہ 68
ڈاکٹر عمر حیات(مولانا کے شاگرد) کہتے ہیں کہ وہ درس دیتے وقت قرآن و حدیث سے کبھی باہر بات نہ کرتے، درس دیتے توسامنے قرآن رکھ لیتے اور اَحادیث سے اس کی تفسیر کرتے جاتے۔قصوں کہانیوں سے ان کی تقریر مبرا ہوتی، ایسالگتا جیسے اُن کے منہ سے پھول جھڑ رہے ہیں ۔ اپنے موقف پر اس قدر دلائل پیش کرتے کہ سننے والے کے لیے مجالِ انکارنہ ہوتا۔ آپ کااندازِ خطابت پرجوش نہیں ہوتا تھا بلکہ بہت دھیمی آواز اور شائستہ کلمات سے مزین تقریر کرتے۔ زیادہ تر بات ہاتھ کے اشاروں سے سمجھاتے اور یہ آپ کا خاص انداز تھا جس سے دور بیٹھے لوگوں کو بھی دیکھ کر سمجھ میں آجاتا کہ مولانا کیاکہنا چاہتے ہیں ۔ درس میں راگ و تصنع جیسی کوئی چیز نہ ہوتی۔ دلائل کو اس ترتیب سے پیش کرنا کہ سامعین کو بخوبی سمجھ آجائے بس آپ پر ختم تھا۔ درس کے بعد سوال وجواب کی نشست ہوتی جس میں آپ مسکرا کر سائل کو ایساجواب دیتے کہ وہ مطمئن ہوجاتا۔
اس کے علاوہ مولانااپنے گھر میں باقاعدہ قرآن کا ترجمہ بھی پڑھاتے جس میں کافی طالب علم شریک ہوتے۔ دوسری طرف آپ کی اہلیہ بچیوں کو گھر میں پڑھاتیں ۔ میاں بیوی کی ان کوششوں کے نتیجہ میں سینکڑوں لڑکے لڑکیوں نے قرآن کے مفہوم کوسمجھا اور اپنی اولادوں کوبھی یہی سبق دیا۔ ان دنوں واربرٹن میں کچھ خرافاتی مولویوں نے مسلک ِاہلحدیث کو طعنہ و تشنیع کا ہدف بنایا ہوا تھا۔ مولانا نے اپنے دروس اور تحریروں سے فرقِ ضالہ کا خوب ردّ کیا اورمسلک ِحق کے دفاع میں ہمیشہ برسرپیکار رہے۔جرائد میں آپ کے مضامین و مقالات بھی زیادہ تر اسی نوعیت کے ہوتے۔
مولانا کسی مسجد میں باقاعدہ خطابت نہیں کرتے تھے۔ ان کی گونا گوں مصروفیات: سکول کی تدریس، تصانیف کا وسیع سلسلہ اور مطالعہ کے لیے وقت، پھر مختلف جرائد کے لیے لکھنے کا کام اور دروس کاسلسلہ جاری رکھنا، یہ سب کام مولانا کی دن رات کی مشغولیت میں شامل تھے، لیکن آپ نے کچھ عرصہ مرکزی جامع مسجد اہلحدیث میں خطبہ جمعہ پڑھایا۔ اسی طرح مسجد فاران اہلحدیث میں بھی کچھ عرصہ خطبہ جمعہ ارشاد فرماتے رہے۔مولانا نے ان خدمات کے صلہ میں کبھی کسی سے ایک پائی بھی وصول نہیں کی بلکہ سکول کی تنخواہ جو کہ ۸۰ روپے ماہوار تھی، سے ہی گزارہ کرتے۔ اتنے خوددار تھے کہ کبھی کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلایا۔