کتاب: محدث شمارہ 338 - صفحہ 67
دیتے۔ شاگردوں میں صلاحیت بھر دینے کی دھن ہر وقت ان کے سر پر سوار رہتی۔بقول محمد زبیر کیلانی بن عبدالواحد کیلانی (مولانا کے شاگرد)کہ وہ اپنے شاگردوں پر عقابی نگاہ رکھتے تھے۔ آپ کے تربیت یافتہ اَفراد کی تعداد سینکڑوں تک پہنچتی ہے جنہوں نے آپ سے بہت کچھ سیکھا اور دنیا میں ایک مقام حاصل کیا۔بہرحال مولانا کی سکول کی حیثیت ایک اُصول پسند استاد اور کامیاب مربی کے طو رپر سب کے سامنے تھی۔ مولانا کی مسلکی خدمات مولانا نے جہاں واربرٹن میں جماعت ِاسلامی قائم کی، وہاں مسلک ِاہلحدیث کے لیے بیش بہاخدمات سرانجام دیں ۔مولاناجماعت اسلامی کو مسلک ِاہلحدیث کی ترویج کاذریعہ سمجھتے تھے اور یہی وجہ تھی کہ جماعت ِاسلامی میں رہتے ہوئے بھی مسلک کے بارے میں کبھی مفاہمت نہیں کی۔ آپ برملامسلک ِاہلحدیث کے داعی تھے اور حق بات کہنے سے ذرا بھی نہ جھجکتے۔ مولانامودودی رحمہ اللہ نے جب ’خلافت و ملوکیت‘ لکھی تو آپ نے ان سے سے صحابہ رضی اللہ عنہم کے متعلق رویے سے اختلاف کیا اور مختلف مسائل میں ان کی مجلسوں میں دلائل کے ساتھ اختلاف کیا۔ مولانا علماے اہلحدیث کو ہی انبیا کا وارث سمجھتے تھے۔ آپ کا مسلک کے ساتھ محبت کا ندازہ اس اَمر سے لگایاجاسکتا ہے کہ اپنا سارا علمی سرمایہ جو کتب کی شکل میں تھا، اہلحدیث اداروں کو وقف کرگئے۔جزا ہ اﷲ خیراً واربرٹن میں اپنے گھر میں درسِ قرآن کا سلسلہ شروع کررکھا تھا جس میں بیسیوں لوگ شریک ہوتے اور قرآن و حدیث کا نور لے کرلوٹتے۔آپ کاطرزِ وعظ اس قدر اچھا ہوتا کہ سننے والے کے لیے بات مانے بغیر چارہ نہ ہوتا۔آپ کے درس میں ہر روز ایک نیانکتہ ملتا۔ ان دروس سے کتنے ہی لوگوں نے توحید و سنت کی روشنی سے اپنے قلوب کو جلا بخشی اور کتنے ہی لوگ بدعات وخرافات کے گھٹا ٹوپ اندھیروں سے نجات پانے میں کامیاب ہوئے۔ آپ کے دروس گاہے بگاہے واربرٹن کے بااثر گھرانوں میں بھی منعقد ہوتے رہتے، خاص طور پر چودھری منظوراور ان جیسی علاقے کی قد آورشخصیات مولانا کو اپنے اپنے گھروں میں درس کے لیے دعوت دیا کرتیں ۔آپ کا درس کیا ہوتا تھا، قرآن و حدیث کے پھولوں سے لدا ہوا گلدستہ پیش کردیتے جس کی خوشبو سے سامعین معطر ہوجاتے۔