کتاب: محدث شمارہ 338 - صفحہ 66
۱۹۴۸ء میں سکول کے اَساتذہ اور بچوں نے حکومت سے سکول کی جگہ کا مطالبہ کرکے جلوس نکالا جس کے نتیجہ میں حکومت نے اُنہیں موجودہ ہائی سکول جو کہقیام پاکستان سے پہلے واربرٹن نامی ایک انگریز کی کوٹھی ہواکرتی تھی (اسی انگریز کے نام پریہ شہر ’واربرٹن‘ کہلایا) کو ہائی سکول کے لیے مختص کردیا گیا اور تاحال اس میں ہی سکول کلاسیں جاری ہیں ۔ مولانانے سکول میں بھی اپنے مقام ومرتبہ کوبالکل واضح رکھا۔ اَساتذہ آپ سے بہت خوش تھے اور آپ کا بے حد احترام کرتے۔ آپ نے کبھی ہم عصر اَساتذہ کو شکایت کا موقعہ نہ دیابلکہ وہ اَساتذہ میں شریف النفس انسان کے طور پر پہچانے جاتے تھے۔ ہائی سکول میں آپ کو عربی کا مضمون دیا گیا جو آپ ریٹائر ہونے تک پڑھاتے رہے۔ تاہم مختصر عرصہ کے لیے اُردو فارسی اُستاد کی عدم موجودگی میں اُردو اور فارسی کا پیریڈ بھی لیتے رہے۔ آپ کا اُسلوبِ تدریس آپ ہی کے شایانِ شان تھا، کبھی کسی لڑکے کو مارا پیٹا نہیں ، ہمیشہ لڑکوں سے شفقت سے پیش آتے۔ اگر کوئی طالب علم سبق یاد نہ کرتا تو پیار سے سمجھا دیتے۔ان کے سمجھانے کاانداز اس قدر پراثر ہوتا کہ لڑکے اپنی غلطی پر ندامت محسوس کرتے اور آئندہ ایسی غلطی نہ کرنے کا عزم کرلیتے۔ شیخ ابوذرّ زکریا صاحب جو کہ ان سے عربی پڑھتے تھے، کہتے ہیں کہ ایک دن میں اپنے بالوں کو ناشائستہ انداز میں کنگھی کرکے سکول چلا گیا، مولانا مجھے دیکھ کر کہنے لگے: ’’ویکھاں وڈھے وہابی دا پتر تے وڈا وہابی‘‘ اس واقعہ کے بعد آج تک میں نے کبھی بڑے بال نہیں رکھے اور نہ ہی سرننگا رکھا۔ مولانا ہمیشہ کلاس میں اپنے ساتھ ڈیڑھ فٹ کا کالے رنگ کا بیدرکھتے۔اکثر از راہِ مزاح ڈنڈا لہرا کر طالب علموں کومخاطب کرکے کہتے کہ بچو یہ دیکھ رہے ہو،کیاہے یہ ؟ میں اسے روزانہ پاؤ دودھ پلاتا ہوں ، سبق یاد کیا کرو ورنہ یہ تم پر برسے گا،لیکن مولانا نے سکول کی پوری زندگی میں کسی لڑکے کو اس ڈنڈے سے کبھی سزا نہ دی۔ ڈاکٹر عمرحیات (مولانا کے شاگرد) کہتے ہیں کہ مولانا وقت کے اتنے پابند تھے کہ پانچ منٹ پہلے ہی سکول میں آجاتے۔ سب اَساتذہ میں وہ ریگولر تھے۔اس وقت سکول کی اسمبلی میں دعا اور ترانہ نہیں کہا جاتا تھا۔مولانا پانچ دس منٹ کا درس دیتے اور لڑکے کلاسوں میں چلے جاتے۔ سکول میں دروس کا کام مولانا کے ذمہ تھا۔ طالب علموں کی تربیت میں کوئی کمی واقع نہ ہونے