کتاب: محدث شمارہ 338 - صفحہ 65
گیا، اس وقت لاہور کے قیم میاں محمدطفیل ہوا کرتے تھے۔ مولانا اور ان کے رفقا نے باقاعدہ طور پرکام شروع کردیا اور دیکھتے ہی دیکھتے بیسیوں لوگ جماعت کے حلقہ میں شامل ہونے لگے، اس میں مولانا زبیدی صاحب کی شخصیت و علمیت کابڑا عمل دخل تھا۔لوگ ان سے اس قدر متاثر تھے کہ ان کی شخصیت ہردلعزیزی کامرقع بنی ہوئی تھی۔ جماعت کے عہدیداران زیادہ تر وہ طالب علم ہی ہوا کرتے تھے جن کی تربیت مولانانے سکول میں کی تھی اور وہ آپ کے سکول کے شاگرد ہوتے۔ چونکہ اس زمانے میں جماعت اسلامی پرپابندی عائد تھی اور حکومتِ وقت جماعت کی سرگرمیوں پر کڑی نظر رکھے ہوئے تھی جس کی وجہ سے مولاناجماعت کے باقاعدہ رکن تو تھے ہی، لیکن سرکاری قدغنوں کا لحاظ رکھتے ہوئے آپ نے صاف طو رپرجماعت کا کوئی نمایاں عہدہ قبول نہیں کیا، حالانکہ جماعت کا ہرچھوٹا بڑا کام آپ کی مشاورت کے بغیر نہ کیا جاتا۔اسی طرح مولانا نے جمعیت طلبہ اسلام بھی قائم کی اور اس کا امیر پروفیسر نعیم صاحب (مولانا کے شاگر)کوبنایا جو ان دنوں ان سے سکول میں پڑھتے تھے۔بقول ان کے کہ ’’ہم چند طلبہ کو ایک دن بلایا اور کہا کہ جمعیت طلبہ کی بنیاد رکھیں ، سو ہم نے جمعیت طلبہ کا کام شروع کردیا۔‘‘ مولانا صاحب کی جماعتی کاوشیں واربرٹن کے مضافات میں پھیلتی چلی گئیں اور دیکھتے ہی دیکھتے واربرٹن کے مختلف دیہاتوں سے بھی لوگ جماعت کے ہم نوا بننا شروع ہوگئے۔آپ جماعت کے روح رواں تھے۔مولانا مودودی سے اکثر ملاقاتیں رہتیں ،جماعت کی بہتری کے لیے تبادلۂ خیال کرتے، جماعت کی غلط پالیسی پربے دھڑک تنقید کرتے۔بقول آپ کے مجلس میں اکثر ان سے مباحثہ بھی کیا، کچھ عرصہ آپ کو کسی غلط فہمی کی وجہ سے جماعت کی رکنیت سے خارج کردیا گیا، لیکن دو سال بعدجماعت نے تحقیق کے بعد آپ کو بری الذمہ قرار دے کر دوبارہ جماعت کی رکنیت میں شریک کرلیا۔سکول سے ریٹائر ہونے تک رکنیت پر برقرار رہے۔ مولانا بطورِ ایک استاذ، ایک مربی! مولانا واربرٹن میں بحیثیت استاذ تشریف لائے۔ اس وقت کا سکول واربرٹن شہر کے اندر راجہ سندر داس کا چوبارہ ہوا کرتا تھا۔ ایک دو سال وہاں آپ نے کلاسیں پڑھائیں ۔غالباً