کتاب: محدث شمارہ 338 - صفحہ 64
اکثر خواہش کا اظہار کرتے رہے کہ کاش!میری اولاد سے کوئی میری کتابوں کا وارث بنتا۔ جماعت کا قیام مولانا زبیدی چونکہ جماعت اسلامی سے متاثر تھے اور اس کا پس منظر بقول حافظ احمد شاکر (مدیر ’الاعتصام‘) کچھ یوں تھا: ’’جس زمانے میں مولانا حصولِ علم سے فارغ ہوئے، وہ سیاسی و ملّی تحریکات کا دور تھا۔ جمعیۃ علماے ہند، کانگریس، مسلم لیگ، اَحرار، جماعت ِاسلامی اور کمیونسٹ وغیرہ تحریکوں کا زور تھا۔ ہر بیدار مغز،صاحب ِعلم اور ملک وملت کا درد رکھنے والے باشعور نوجوان کسی نہ کسی تحریک سے متاثر ہوتے۔ان کا لٹریچر پڑھتے اور کسی نہ کسی تحریک سے متفق ہوجاتے یا اس کے ہم آہنگ ہوجاتے۔ تحریک قیامِ پاکستان شروع ہونے کے بعد نوجوان مزید مصروف ہوگئے اور اپنا اپنا میدانِ سعی و کاوش منتخب کرلیا۔دین کا علم اور اس سے تعلق رکھتے والے نوجوان جمعیۃ علماے ہند، احرار یا جماعت ِاسلامی میں سے کسی ایک کو پسند کرتے اور اس کی ’خدمت‘ میں مصروف ہوجاتے۔مولانا چونکہ اصحابِ علم میں سے تھے اور مطالعہ ہی ان کا اُوڑھنا بچھونا تھا اور لٹریچر صرف جماعت ِاسلامی ہی کا میسر تھا، اس لیے مولانا ان کا لٹریچر پڑھ کر جماعت ِاسلامی سے اس طرح متاثربلکہ اس پر فریفتہ ہوئے کہ اس کے بعد کوئی دوسری جماعت یامولانا مودودی رحمہ اللہ کے علاوہ کوئی دوسرا لیڈر ان کی نظر میں جچا ہی نہیں ۔ ان کے دل میں جو مقام جماعت اِسلامی کااور جوعقیدت مولانامودودی سے قائم ہوگئی،اس میں وہ کسی کو شریک و سہیم نہ کرسکے۔‘‘ ( ’الاعتصام‘ ۳۰/مئی ۲۰۰۳ئ) ان دنوں کیلانی خاندان کے چشم و چراغ جناب حکیم عبدالواحد چاندی کوٹی جو کہ اہلحدیث مسلک سے تعلق رکھتے تھے اور جماعت ِاسلامی سے بھی متاثر تھے، نے مولانا صاحب سے مسلکی وابستگی کی بنا پر مشورہ کیا کہ کیوں نہ واربرٹن میں جماعت کا کام باضابطہ طور پر کیا جائے۔ ان کے مشورہ پر عمل درآمد کے لیے مولانازبیدی صاحب نے ۵۰-۱۹۴۹ء میں حکیم عبدالواحد صاحب کو جماعت کا امیربنا دیا۔ جماعت اسلامی کے تعارفی جلسے میں کوثر نیازی، منور حسن صدیقی، نعیم صدیقی جیسے رہنما شامل ہوئے۔ حکیم صاحب ایک دانا شخص تھے۔اُنہوں نے بڑے استقلال سے جماعت کو منظم کیا۔ جماعت کے مختلف مراحل ہیں ، حلقہ متّفقین کے امیر نذیر نارگ (جو بریلوی مسلک سے تعلق رکھتے تھے اور مولانا کے شاگرد تھے) کو بنا دیا