کتاب: محدث شمارہ 338 - صفحہ 63
منڈی واربرٹن آمد آپ غالباً ۱۹۴۸ء میں واربرٹن کے ہائی سکول میں ملازمت ملنے پر منتقل ہوگئے۔ واربرٹن میں تقسیم کے وقت چھوڑی گئی سکھوں اور ہندوؤں کی بہت سی املاک بڑی بڑی عمارتوں کی صورت میں موجود تھیں ۔اس وقت کا ہائی سکول راجہ سندر داس کا گھر ہوا کرتا تھا اور وہیں سکول کی کلاسوں کا انعقاد ہوتا تھا۔ مولانا کی واربرٹن آمد اور اس کے بعد ہونے والے واقعات سے قبل مناسب ہوگا کہ واربرٹن کی دعوتی لحاظ سے تاریخی حیثیت کا ذکر کیا جائے۔ واربرٹن اس وقت چندہزار نفوس پرمشتمل ایک چھوٹا سا قصبہ تھا اور اس میں زیادہ تر مہاجر لوگ آبادتھے جو تقسیم کے وقت پاکستان ہجرت کرکے آئے تھے۔ اب تو اس کی آبادی کئی گنا زیادہ ہوگئی ہے۔ سنجیدہ خاندانوں کی اکثریت کی وجہ سے واربرٹن کا مذہبی ماحول دوسرے شہروں کی نسبت قدرے سلجھا ہوا تھا۔ اس شہر کی روایت ہے کہ یہاں کے باسی شروع سے ہی حقیقت پسند واقع ہوئے اور اہل حق کو اگر اس علاقہ میں ، جس کے مضافات میں دیہات ہی دیہات ہیں ، دین کی آبیاری کی جگہ نظر آئی تو یہی شہر واربرٹن تھا۔ ضلع شیخوپورہ(ننکانہ) میں اہل توحید نے اس سرزمین کو ہموار پایا اور اسے اپنی سرگرمیوں کامرکز بنانے کی کوشش کی۔ مولانا نے اپنی دینی، تعلیمی و تبلیغی صلاحیتوں سے واربرٹن کے لوگوں کے دل جیت لیے تھے۔ لوگوں کے رجحان کو دیکھتے ہوئے آپ نے مسلک اہلحدیث کو متعارف کروانے کے لیے جماعت اِسلامی کو ذریعہ بنایا اور دیکھتے ہی دیکھتے بیسیوں لوگ آپ کے ہم نوا بن گئے او لادِ خانہ اولاد نہ ہونے کی وجہ سے آپ کی بیوی نے آپ کو مشورہ دیاکہ وہ دوسری شادی کرلیں جس پر مولانانے تقریباً ۱۹۵۰ء میں دوسری شادی کرلی،دوسری بیوی کا تعلق ملتان سے تھا۔اس کے بطن سے ایک بیٹا پیدا ہوا جس کا نام جاوید رکھا گیا۔ نباہ نہ ہونے کی وجہ سے جلد ہی علیحدگی ہوگئی۔شریف الطبع ہونے کے سبب مولانا نے خوش دلی سے بچہ اپنی بیوی کے حوالے کردیا۔ آج سے ۲۹سال پہلے ملک برادری کے گھرانے سے ایک بچہ متبنیٰ بنایاجس کا نام مرتضیٰ تھا۔ تامرگ یہی بیٹا ان کے ساتھ رہا،لیکن افسوس کہ مولانا کی طرح دینی علم حاصل نہ کر سکا۔آپ