کتاب: محدث شمارہ 338 - صفحہ 62
البتہ تقریباً ۹/سال کی عمر میں آپ نے درسِ نظامی میں داخلہ لے لیا اور ۳۷-۱۹۳۶ء میں آپ بخاری شریف کی تعلیم سے فارغ ہوئے، کچھ عرصہ مولانا عبدالتواب ملتانی رحمہ اللہ کے پاس بھی پڑھتے رہے۔ وہ آپ کو بہت پسند کرتے اور ہونہار شاگردوں میں تصور کرتے تھے۔مولانا سلطان محمود سے جلال پور پیروالہ میں پڑھتے رہے۔جلال پور میں آپ کی کلاس اس مدرسہ کا پہلا سال تھا۔ ۱۹۴۰ء میں آپ دارالعلوم زبیدیہ میں دورۂ حدیث کے لیے چلے گئے اور اسی کی نسبت سے زبیدی لکھاکرتے تھے۔ اس کے علاوہ آپ نے اورینٹل کالج لاہور میں داخلہ لے لیا اور ۹/ فروری ۱۹۴۵ء میں ۳۵۲ نمبروں سے مولوی فاضل کیا۔مولاناکہیں بھی رہے، خوب محنت سے پڑھتے رہے اور کبھی کسی اُستاد کوشکایت کاموقع نہ دیا۔ان کی محنت وذہانت سے سب اَساتذہ خوش تھے۔آپ جہاں بھی تحصیل علم کے لیے گئے،اپنی قابلیت کا لوہا منوایا اور دوسرے شاگردوں میں ہمیشہ ممتاز رہے ۔ اَساتذہ آپ کے قابل ذکر اَساتذہ میں سے احمد اللہ صاحب دہلوی جوکہ شیخ الکل فی الکل سید نذیر حسین دہلوی رحمہ اللہ کے شاگرد تھے، شامل ہیں ۔ ان سے خوب کسبِ فیض کیا اور ان کے علاوہ مولاناعبدالتواب ملتانی (مترجم بلوغ المرام) سے سنن اَربعہ پڑھیں ۔ مولانا سلطان محمود رحمہ اللہ بھی آپ کے اَساتذہ میں سے ہیں ۔ ان کے پاس آپ نے شرح الفیہ از عراقی وغیرہ پڑھیں ۔ان کے علاوہ مولانا مفتی محمد شفیع دیوبندی سے بھی آپ نے علم حاصل کیا۔ قبول مسلک ِاہل حدیث اور شادی خانہ آبادی آپ مولاناسلطان محمود رحمہ اللہ سے ان دنوں علم حاصل کرنے میں مصروف تھے،آپ کی ذہانت پر مولاناسلطان محمود مطمئن تھے۔مولاناسلطان محمود کی دعوت پر آپ نے اہل حدیث مسلک قبول کیا اور تامرگ اسی مسلک کے پرچارک رہے۔انہی دنوں جب آپ مولاناسلطان محمودکے پاس حصولِ علم کے مراحل طے کررہے تھے،ایک آدمی آیا اور مولاناسلطان محمود سے کہنے لگا کہ میں اس لڑکے سے اپنی بیٹی کا رشتہ کرناچاہتا ہوں اور اس طرح زبیدی صاحب رشتۂ اِزدواج میں منسلک ہوگئے۔