کتاب: محدث شمارہ 338 - صفحہ 60
اس گفتگو سے مقصود یہ ہے کہ خود ترقی کے مادی معیارات بھی مختلف ہوتے ہیں اور ترقی ماپنے کا کوئی عالمگیر پیمانہ نہیں ہے، لیکن کسی بھی پیمانے پر ترقی انسان کا مقصودِ حیات بن جائے یا فوزو فلاح کی میزان بن جائے اور نجات و ہدایت کے مقصد ِحیات کو بھلا دے تو تباہی اور گمراہی اس کا مقدر بن جاتی ہے۔ آج پوری انسانیت بالعموم اسی جہالت کے گڑھے میں دھنستی جارہی ہیں جہاں اس نے نجات و ہدایت کی بجائے ترقی و مادیت کو اپنا مقصود قرار دے دیا ہے اور اسی کو کامیابی کی راہ سمجھ لیا گیا ہے۔ جبکہ اسلام کے نزدیک مادی ترقی یا مادی انحطاط کا حقیقی کامیابی سے کوئی تعلق نہیں ۔ پرانے زمانے میں بھی کئی قومیں ایسی ہو گزری ہیں جنہوں نے تمدن، بودوباش اور عمارت سازی میں بہت ترقی کرلی تھی۔ اس مادی ترقی اور اس پر ان کے گھمنڈ کا تذکرہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿فَأَمَّا عَادٌ فَاسْتَکْبَرُوا فِیْ الْأَرْضِ بِغَیْْرِ الْحَقِّ وَقَالُوا مَنْ أَشَدُّ مِنَّا قُوَّۃً أَوَلَمْ یَرَوْا أَنَّ اﷲَ الَّذِیْ خَلَقَہُمْ ہُوَ أَشَدُّ مِنْہُمْ قُوَّۃً﴾ (فصّلت:۱۵) ’’عاد کا حال یہ تھا کہ وہ زمین میں کسی حق کے بغیر بڑے بن بیٹھے تھے اور کہنے لگے: ’’ کون ہے ہم سے زیادہ زور آور‘‘… ان کو یہ نہ سوجھا جس خدا نے ان کو پیدا کیا ہے وہ ان سے زیادہ زور آورہے۔‘‘ اسی طرح فراعنۂ مصر اور قارون کا حال قرآن مجید نے بیان کیا ہے ۔ فراعنۂ مصر کے دور کی ترقی کا حا ل تو آج بھی اہرامِ مصر سنا رہے ہیں ، لیکن فرعون اورقارون اپنی جاہ وحشمت سمیت غرقِ آب کر دیئے گیے اور زمین میں دھنسادیئے گئے اور آخرت میں جہنم کاایندھن بنادیئے گئے۔یوں مادی ترقی اُن کے لیے فوز و فلاح کا سبب نہ بن سکی،نہ دنیامیں اور نہ ہی آخرت میں ! ان کے مقابلے میں قرآن مجید اَصحاب کہف اور اصحاب الاخدود کے واقعات سناتاہے جو اس دنیا میں تو ’ترقی‘کی راہ پر گامزن نہ تھے بلکہ اپنے معاشرے اور حکمرانوں کے زیر ِعتاب آکر رہے، لیکن آخرت میں حقیقی فوز و فلاح سے ہم کنار ہوئے ۔