کتاب: محدث شمارہ 338 - صفحہ 6
جیک سٹرا نے نقاب پر پابندی کے مسئلہ کو پارلیمنٹ میں زیر بحث لانے کا تقاضا کیا اور یہ قرار دیا کہ نقاب کے ذریعے برطانیہ میں بسنے والی آبادیوں کے باہمی معاشرتی تعلقات متاثر ہوتے ہیں ۔ ان کی تائید برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیر نے کی اور کہا کہ میں پابندی لگانے کو تو نہیں کہتا، لیکن اسے زیر بحث لانے کی تائید کرتا ہوں ۔ جیک سٹرا پر اس حوالے سے تنقید بھی کی گئی اور نائب وزیر اعظم جان پریسکاٹ نے اسے مسلمان خواتین کا حق قرار دے کرنقاب کا دفاع کیا۔ کمیونٹی اور مقامی حکومتوں کے وزیر فل وولس نے کہا کہ’’ اُصولاً تو نقاب پر پابندی ہونی چاہئے، کیونکہ ا س سے خوف اور دوسروں کی تضحیک کا اندیشہ لاحق ہوتا ہے ، البتہ اگر اس پر سختی اور قانون سازی کی گئی تو مسلمان اپنی روایات کا دفاع کریں گے اورا س کے نتیجے میں ’برائی دربرائی‘ کا طویل اور نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوجائے گا جس سے بی این پی جیسی انتہاپسند جماعتیں فائدہ اُٹھاتی ہیں ۔ لہٰذا قانون سازی کی بجائے مناسب اقدامات سے برطانیہ میں نقاب کو آہستہ آہستہ ختم کرنا چاہئے۔‘‘ جیک سٹرا پر تنقید کرتے ہوئے چرچ آف انگلینڈ نے یہ قرار دیا کہ مختلف اقلیتوں کے بارے قانون سازی سے برطانوی معاشرہ مزید تفریق کا شکار ہوجائے گا، اس لئے ایسی بحثوں سے گریز کرنا چاہئے۔ اندریں حالات یہ بحث برطانیہ میں زیادہ نہ پنپ سکی۔ ٭ جون ۲۰۰۴ء میں برطانیہ میں شبینہ نامی ایک ۱۵ سالہ مسلم طالبہ کا کیس بھی سامنے آیا جس کو لیوٹن شہر میں برقعہ پہننے پر سکول سے خارج کردیا گیا تھا۔ حجاب پر فرانس میں لگنے والی پابندی کے بعد سازگار فضا کی بنا پر ہائیکورٹ نے یہ قرار دیا کہ ’’سکول کی پالیسی درست ہے جو تما م مذاہب میں ہم آہنگی اور تہذیبوں کے مابین مفاہمت کو فروغ دیتی ہے، اس لئے اُصولاً تو سکول کو یونیفارم وغیرہ کی بنا پر طلبہ کو خارج نہیں کرنا چاہئے، لیکن اگر کوئی طالبہ اس پر اصرار کرے تو سکول کے پاس ایسا کرنے کا اختیار موجود ہے۔‘‘ ٭ سکول میں نقاب وسکارف پہننے کا مسئلہ مارچ۲۰۰۴ء میں امریکہ میں بھی پیش آیا، جہاں ریاست اوکلو ہاما میں ۱۱ سالہ نتاشا نے سرڈھانپنے پر پابندی عائد کرنے پر امریکی عدالتِ انصاف سے داد رسی طلب کی تھی۔ یہاں بھی سکول انتظامیہ نے یونیفارم کی خلاف ورزی کی بنا پر طالبہ کو خارج کردیا تھا۔ امریکی عدالت ِانصاف نے برطانوی ہائی کورٹ کے برعکس یہ قرار