کتاب: محدث شمارہ 338 - صفحہ 58
یاددہانی کے لئے برپا ہوتی ہے۔ آدم ؑ سے لے کر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک تمام کے تمام انبیا اسی مقصد کو لے کر مبعوث ہوتے رہے۔ وہ کسی رہبانیت کا سبق نہ دیتے تھے، لیکن ترقی ٔدنیا کو بھی انسانی زندگی کا محور نہ بناتے تھے۔ بلکہ دنیا کے ہر معاملے کو وحی الٰہی کی روشنی میں طے کراتے تھے اور انسان کا مقصد ِ پیدائش عبادت و بندگی اور منتہاے مقصود رضاے الٰہی اور نجات ِاُخروی کو قرار دیتے رہے۔ اسی مقصدِ حیات کی تعلیم پیروانِ نبوت نے اپنے معاشروں میں عام کی۔ اسی مقصد ِ حیات کے لیے اسلامی حکومت و خلافت برپا ہوتی رہی۔ اسلامی مدارس جس علم کو پھیلاتے ہیں وہ وحی کا علم ہوتا ہے۔ قرآن و سنت اور ان سے ماخوذ عقیدہ، فقہ اور تزکیہ کے علوم جو انسان کو نجات کی راہ سمجھاتے ہیں ۔ فنون، طب، ہندسہ، کیمیا، فلسفہ، منطق وغیرہ یا تو ردّ کے لئے سکھلائے جاتے ہیں یا پھر تخصص اوردیگر ضروریات کے لئے، اس لئے یہ علوم فرضِ کفا یہ ہیں ۔جو علم فرضِ عین ہے وہ مقصودِ حیات یعنی ہدایت و نجات کا علم ہے،نہ کہ آسائش و ترقی کا علم یا خواہشاتِ نفس کو پورا کرنے کا علم۔ ہدایت و نجات کا بنیادی علم جوکہ فرضِ عین کی حیثیت رکھتا ہے، جانے اور مانے بغیر کوئی شخص ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرلے یا انجینئر،ڈاکٹر اور سائنسدان بن جائے، اسلام کی نظر میں وہ جاہل یا ماہر فن تو ہوگا ،کوئی عالم ہر گز نہیں ۔ اسی طرح کوئی بھی معاشرہ اور حکومت جو بندگی ٔربّ، عدل اور نجات کے بجائے فقط آزادی، مساوات اور ترقی کی اَقدار پر قائم ہو، اسلام کی نظر میں وہ جاہلی معاشرہ اور طاغوتی حکومت گنی جائے گی جو اپنے افراد و عوام کو اللہ کی رضااور جنت کی بجائے اللہ کے غضب اورجہنم کی طرف لے جانے کا سبب اور وسیلہ بنے گی۔ یاد رہے کہ ترقی و تنزل کا یہ وہ تصور ہے جو جاہلی معاشروں میں پایا جاتا ہے اور مادی پیمانوں میں تولا جاتا ہے۔ عروج و زوال کا اسلامی تصور اس سے بالکل الگ شے ہے۔ اسلامی حوالے سے تو ترقی مقصد ِحیات نہیں بلکہ نجات مقصد ِحیات ہے،لیکن کیا جاہلی اعتبار سے بھی انسان اور دنیا ترقی کی منزلیں طے کررہے ہیں ۔ بعض مفکرین کا یہ کہنا ’’انسان نے پرندوں کی طرح ہوا میں اُڑنا تو سیکھ لیا ہے اور مچھلیوں کی طرح سمندر میں تیرنا سیکھ لیا ہے، لیکن انسان کی