کتاب: محدث شمارہ 338 - صفحہ 57
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو!بچاؤ اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو آگ سے۔ ‘‘ مگربد قسمتی سے ہم لوگ(مسلمان)بھی جس شخصیت کو ترتیب دیتے ہیں ،جس معاشرہ کو بناتے ہیں اورجو حکومت اور نظام چلاتے ہیں ،وہ ترقی کے لئے تو معاون ہوتا ہے اور ’نجات‘ و ’ہدایت‘ کے مخالف یا لا تعلق۔ہمارے سکول، کالج اور یونیورسٹیاں جو تعلیم دے رہے ہیں ، آئندہ نسلوں کی جو شخصیت ترتیب دے رہے ہیں ، جو ذہنیت پروان چڑھ رہی ہے اور جو تعلیمی نصاب بنائے جاتے ہیں وہ سب کے سب طالب علموں کو چند روزہ دنیوی ترقی کے لئے تیار کرتے ہیں ۔سائنس یا سوشل سائنس کی تعلیم ہوتی ہے تو ’ترقی‘کے لئے۔ یہاں تو ’اسلامیات‘ کی تعلیم بھی نجات اور ہدایت کے مقصد کے لئے نہیں بلکہ ترقی کی غرض سے لی اوردی جاتی۔ سائنس پڑھنے والے طلبہ و طالبات ہو ں یا سوشل سائنس پڑھنے والے، آپ کبھی ان کے ماحول اور مباحث کو دیکھ لیجئے ، سن لیجئے! میڈیا کے ذریعے قوم کی جو ذہنیت بنائی جارہی ہے ،اخبارات ورسائل، ریڈیو اور ٹی وی کے ذریعے جو تربیت کی جاتی ہے،جو سبق اور تعلیم پھیلائی جاتی ہے۔ ڈرامہ ، فلم، ادب، نثر، نظم،اَفسانہ کے ذریعے جو کچھ سکھایا جاتاہے، وہ مسلمانوں کو نجات و ہدایت کی بجائے ترقی کو ہی مقصد ِ حیات بنانے میں مدد کرتا ہے۔ سماجی سطح پر NGOs، معاشی سطح پر سودی ادارے، سیاسی سطح پر حاکمیت ِجمہور، عالمی سطح پرUNO, World Bank, IMF.وغیرہ سب ہی ادارے ترقی ہی کو انسانی حیات کا مطمع نظر قرار دیتے ہیں ۔ اور انسان کو اس کی حقیقی فوز و فلاح اور ہدایت و نجات سے غافل کرنے میں اپنا اپنا کردار بھر پور طریقے سے ادا کررہے ہیں ۔ یوں موجودہ دور کے تمام اِدارے سماجی سطح پر ہوں یا سیاسی سطح پر، تعلیمی ہوں یا معاشی، سائنس کے علوم ہوں یا سوشل سائنس کے، ادب ہو یا تاریخ سب کے سب انسانوں کو اسلام اور اس کی تعلیمات سے دور کرنے میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں ۔ اس کے مقابلے میں اسلامی شخصیت ، اسلامی معاشرہ اور اسلامی حکومت و ریاست ہر سطح پر چاہے و ہ انفرادی ہو یا اجتماعی، عقیدہ ہو یا نظام، آخر کار وہ توحید ِباری تعالیٰ اور آخرت کی