کتاب: محدث شمارہ 338 - صفحہ 56
’جاہلیت ِجدیدہ‘ کے ہاں جب ’ترقی‘ مقصد ِحیات ٹھہری تو باقی ہر چیز پست ہوگئی۔ مذہب، عقیدہ، اخلاق، شریعت جو چیز بھی ترقی کی راہ میں حائل ہو،اسے توڑ ڈالو، تباہ کردو، بدل دو۔ ترقی کی راہ میں مذہب حائل ہوا تو اُنہوں نے اسے بیڑیاں سمجھ کر توڑڈالا، وحی الٰہی سے انکار کردیا،کتابِ الٰہی کو دستور ازکار ِرفتہ بنادیا۔ عقیدہ اگر ترقی کی راہ میں حائل ہوا تو ’لاأدري‘ کہہ کر اللہ پروردگارِ عالم اور آخرت کی جزا و سزاکو اپنی زندگی سے لاتعلق کرلیا۔ اخلاق حائل ہوا تو معیارِ اخلاق ہی بدل ڈالا۔مذہب اور فطرت کی بجائے عالمگیر غلبہ Universolisation اور مادی غلبہ اخلاق کا معیار بن گئے۔ حلال و حرام کے الٰہی ضابطے، ترقی کی راہ میں رکاوٹ بنے تو اُنہوں نے حلال و حرام کے پیمانے خود گھڑ لئے۔ اب حلال و حرام وہ نہیں جس کو اللہ، کتاب اللہ اور رسول اللہ حلال و حرام قرار دیں بلکہ ہر وہ چیز حلال ہے جو ترقی کی راہ میں معاون بنے۔ آزادی، مساوات ، سود، فحاشی، ملکوں پر قبضے، قوموں کا خون ، نسلوں کی تباہی ہر شے جائز اورہر وہ چیز حرام ہے جو ترقی کی راہ میں رکاوٹ بنے۔ علم وہ پسندیدہ ہے جو ترقی میں معاون ہو۔شخصیت وہی محبوب ہے جو ترقی پسند ہو۔جومدرسہ’نجات‘ کا علم پڑھائے،جو شخصیت ’ہدایت‘ کی طالب ہو،جاہلیتِ جدیدہ کے اس دور، معاشرے اورحکمرانی میں اُس کا نہ کوئی مقام ومرتبہ ہے نہ کوئی وقارو احترام !! لیکن ایک مسلمان یہ ایمان رکھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کائنات کو موت و حیات کو امتحان و آزمائش کے لئے پیدا فرمایا ہے: ﴿الَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیٰوۃَ لِیَبْلُوَکُمْ أَیُّکُمْ أَحْسَنُ عَمَلاً﴾ (الملک:۲) ’’جس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ تم لوگوں کو آزما کر دیکھے تم میں سے کون اچھے عمل کرنے والاہے۔‘‘ اورمالک کائنات نے حکم فرمایا کہ اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو جہنم کی آگ سے بچانے کی فکر کی جائے : ﴿یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا قُوْا أَنفُسَکُمْ وَأَہْلِیْکُمْ نَاراً ﴾ (التحریم:۶)