کتاب: محدث شمارہ 338 - صفحہ 55
تو دنیا اپنی تمام تر زیب و زینت ،مال و دولت، عورت و شہرت اوراقتدار و لشکر سمیت لازمۂ حیات تو ہے اور ضرورتِ زندگی بھی مگر مقصود ِحیات نہیں اور کامیابی کی علامت وضمانت نہیں ۔مقصودِ حیات ’ہدایت‘ ہے اور کامیابی کی علامت و ضمانت ’نجات‘ ہے۔اسی لئے قرآنِ مجید نے ذکر کیا ہے: ﴿زُیِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّہَوَاتِ مِنَ النِّسَاء وَالْبَنِیْنَ وَالْقَنَاطِیْرِ الْمُقَنطَرَۃِ مِنَ الذَّہَبِ وَالْفِضَّۃِ وَالْخَیْْل ِالْمُسَوَّمَۃِ وَالأَنْعَامِ وَالْحَرْثِ ذَلِکَ مَتَاعُ الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا وَاللّٰہُ عِندَہُ حُسْنُ الْمَآبِ﴾ (آل عمران:۱۴) ’’لوگوں کے لیے مرغوبات ِنفس: عورتوں ،اولاد ،سونے چاندی کے ڈھیر، چیدہ گھوڑے ،مویشی اور زرعی زمینیں بڑی خوش آیند بنادی گئی ہیں ،مگر یہ سب دنیا کی چندروزہ زندگی کا سامان ہیں ۔ حقیقت میں جو بہتر ٹھکانا ہے، وہ اللہ کے پاس ہے۔‘‘ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ﴿ أَنَّ رَسُولَ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ مَا مِنْ غَازِیَۃٍ تَغْزُو فِی سَبِیلِ اﷲِ فَیُصِیبُونَ الْغَنِیمَۃَ إِلاَّ تَعَجَّلُوا ثُلُثَیْ أَجْرِہِمْ مِنَ الآخِرَۃِ وَیَبْقَی لَہُمُ الثُّلُثُ وَإِنْ لَمْ یُصِیبُوا غَنِیمَۃً تَمَّ لَہُمْ أَجْرُہُمْ ﴾(صحیح مسلم:۱۹۰۶) ’’جب مجاہد اللہ کی راہ میں لڑتے ہیں اور اُنہیں (امن و سلامتی سے) مالِ غنیمت مل جاتا ہے تو اُنہوں نے اپنا دو تہائی ثواب دنیا میں پالیا اور اگر(مصیبت یا شکست آئے اور) وہ غنیمت حاصل نہ کرسکیں تو وہ پورے ثواب کے مستحق ہوں گے۔‘‘ امیر المومنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے دورِ مبارک میں فتح فارس کے موقع پر مدینہ منورہ کے بیت المال میں سونے چاندی کے ڈھیر جمع ہورہے ہیں ، لوگ خوش ہورہے ہیں اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ رو رہے ہیں ۔ ساتھیوں نے وجہ دریافت کی تو بتایا کہ کہیں ہمارے اعمال کا بدلہ اسی دنیا میں نہ مل رہا ہو ہم نے تو وہ آخرت کے لئے کیے ہیں ۔ مسلمانوں کا امام صرف نماز کا نہیں بلکہ سیاست کابھی، صرف مسجد کا امیر نہیں بلکہ خلافت کا بھی امام ہوتا ہے۔ملک فتح بھی کررہے ہیں ، قوموں کو زیر نگین بھی لارہے ہیں مگر اس کو کامیابی کا معیار اور کامرانی کی حقیقی علامت نہیں سمجھا جارہا۔