کتاب: محدث شمارہ 338 - صفحہ 54
کرتا رہا۔ شرک کا زہر گھونٹ گھونٹ بھرتا رہا، مرتا رہا اور نتیجتاً جنت سے محروم اور جہنم کا ایندھن بنا دیا گیا۔ ﴿وَالْعَصْرِ ٭ إِنَّ الْإِنسَانَ لَفِیْ خُسْرٍ ٭ إِلَّا الَّذِیْنَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ ﴾(سورۃ العصر) ’’زمانے کی قسم! انسان درحقیقت خسارے میں ہے، سوائے اُن لوگوں کے جو ایمان لائے اور نیک اعمال کرتے رہے ،اور ایک دوسرے کو حق کی نصیحت اور صبر کی تلقین کرتے رہے۔ ‘‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ أَنَّ رَسُولَ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ: رُبَّ أَشْعَثَ مَدْفُوعٍ بِالأَبْوَابِ لَوْ أَقْسَمَ عَلَی اﷲِ لأَبَرَّہُ‘‘ (صحیح مسلم:۲۶۲۲) ’’ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بہت لوگ پریشان حال، بال غبار آلودہ دروازوں سے دھکیلے ہوئے ایسے ہیں کہ اگر اللہ کے اعتماد پر کسی بات کی قسم کھا بیٹھیں تو اللہ اُ ن کی قسم کو سچا کر دے۔ ‘‘ توکیا ہم یہ کہہ رہے ہیں کہ دنیا کافروں کے لئے چھوڑ دی جائے اور راہبوں کی طرح، صوفیوں اور پنڈتوں کی طرح مردم بیزار اور دنیا سے بے نیاز ہوکر رہا جائے۔ حاشا و کلا ّہمارا مقصد یہ ہے اور نہ ہی اسلام کی تعلیم یہ ہے۔ بلکہ مالک کائنات نے تو ہمیں دعا سکھلائی ہے کہ مانگتے رہیں ﴿رَبَّنَا آتِنَا فِیْ الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَفِیْ الآخِرَۃِ حَسَنَۃً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ ﴾(البقرۃ:۲۰۱) ’’اے ہمارے ربّ!ہمیں دنیا میں بھی بھلائی دے اور آخرت میں بھی بھلائی،اور آگ کے عذاب سے ہمیں بچا۔‘‘ اور ہمیں یہ تعلیم دی: ﴿وَلَا تَنسَ نَصِیْبَکَ مِنَ الدُّنْیَا وَأَحْسِن کَمَا أَحْسَنَ اللَّہُ إِلَیْکَ وَلَا تَبْغِ الْفَسَادَ فِیْ الْأَرْضِ إِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ الْمُفْسِدِیْنَ ﴾ (القصص:۷۷) ’’اور دنیا میں سے اپنا حصہ فراموش نہ کر ،احسان کر جس طرح اللہ نے تیرے ساتھ احسان کیا ہے اور زمین میں فساد برپا کرنے کی کوشش نہ کر،اللہ مفسدوں کو پسند نہیں کرتا۔‘‘