کتاب: محدث شمارہ 338 - صفحہ 53
حکومت اپنے ملک و قوم کی خیر خواہ مانی جائے گی۔ اس کا جواب آج کی جاہلیت ِجدیدہ ’ترقی‘ کے نام سے دیتی ہے اور اسلام ’نجات‘ کے نام سے۔ جاہلیت ِ جدیدہ کے ہاں کوئی بھی فرد کامیاب و کامران اس وقت گنا جائے گا جب وہ ترقی کررہا ہو، اس کے سر مایے میں اضافہ ہورہا ہواور وہ ’آزادی‘ اور ’مساوات‘ کی اَقدار میں آگے بڑھ رہا ہو۔جبکہ اسلام کی نظر میں کوئی شخص اس وقت کامیاب و کامران گِنا جاتا ہے جب وہ دنیا میں ہدایت اور آخرت میں ’نجات‘ پانے والا بن جائے، فرمان ِباری تعالیٰ ہے: ﴿فَمَن زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَاُدْخِلَ الْجَنَّۃَ فَقَدْ فَازَ ﴾(آل عمران:۱۸۵) ’’کامیاب دراصل وہ ہے جو وہاں آتشِ جہنم سے بچ جائے اور جنت میں داخل کردیا جائے۔‘‘ نیز فرمایا: ﴿الْمَالُ وَالْبَنُونَ زِیْنَۃُ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَالْبٰقِیٰتُ الصّٰلِحٰتُ خَیْْرٌ عِندَ رَبِّکَ ثَوَابًا وَخَیْْرٌ اَمَلاً﴾ (الکہف:۴۶) ’’یہ مال اور یہ اولاد محض زندگی کی ایک ہنگامی آرائش ہے۔ اصل میں تو باقی رہ جانے والی نیکیاں ہی تیرے ربّ کے نزدیک نتیجے کے لحاظ سے بہتر ہیں ۔‘‘ ﴿اللّہُ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ یَشَاء ُ وَیَقَدِرُ وَفَرِحُواْ بِالْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَمَا الْحَیٰوۃُ الدُّنْیَا فِیْ الآخِرَۃِ إِلاَّ مَتَاعٌ﴾(الرعد:۲۶) ’’یہ لوگ دنیوی زندگی میں مگن ہیں ، حالانکہ دنیاکی زندگی آخرت کے مقابلے میں متاعِ قلیل کے سواکچھ بھی نہیں ۔ ‘‘ ہدایت اِس دنیا میں اللہ کے پیغمبرؐ کی تعلیمات(قرآن و حدیث) کی پیروی کا نام ہے اور نجات اُس دنیا(آخرت) میں اللہ تعالیٰ کی رحمت سے عذاب ِجہنم سے بچ کر نعمت ِجنت میں جانے کا نام ہے۔ دینِ اسلام میں کوئی شخص ’ترقی‘ نہ کررہا ہو یعنی نہ تو اس کی دولت میں اضافہ ہورہا ہو اور نہ وہ دنیا کی تسخیر میں آگے بڑھ رہا ہو،یہ تو ممکن ہے کہ وہ دنیا کی دوڑ میں پیچھے رہ جائے، لیکن اسلام اس کو ناکام ونامراد فرد کے طور پر نہیں لیتا۔بلکہ ناکام و نامراد تو وہ بد نصیب ہے جو ہدایت نہ پا سکا، وحی کی نعمت کی پیروی سے محروم رہا،توحید کی مٹھاس نہ چکھ سکا،گمراہی و ظلمت کے اَندھیروں میں بھٹکتا رہا، وحی کے علم سے بے بہرہ اور اس کی پیروی سے اِعراض