کتاب: محدث شمارہ 338 - صفحہ 52
اسلام اور مغرب محمد عمران صدیقی٭ پیمانۂ فوز و فلاح… ترقی یا نجات؟ ترقی! ترقی! ترقی!… ہر فرد کی کوشش کامحور یہی ہے۔ہر معاشرہ ترقی کی منزلیں طے کرنا چاہتا ہے۔ہر حکومت اسی میں ملک و قوم کی کامیابی تصور کرتی ہے۔ انسانی حیات کی ہر تین سطحوں پر یعنی فرد، معاشرے اور حکومت کی کامیابی کا تصور… ترقی… کے ساتھ جڑا ہے۔ کامیاب فرد وہی ہے جو مسلسل ترقی کررہا ہو، کامیاب معاشرہ وہی ہے جو مسلسل ترقی کی راہ پر گامزن ہو،کامیاب حکومت و مملکت وہی ہے جو ترقی پذیر سے ترقی یافتہ اور ترقی یافتہ سے آگے مزید ترقی کی طرف سفر کررہی ہو…! کامیابی کا پیمانہ ’ترقی‘ ہے تو ’ترقی‘ کا پیمانہ فی کس آمدنی Per capita Income یا پھر ’ترقی‘ کا پیمانہ ’تسخیر ِکائنات‘ ہے۔ جس معاشرے میں فی کس آمدنی جس قدر زیادہ ہوگی اسی قدر وہ ’ترقی یافتہ‘ کہلائے گا۔ مگر اس کے لئے یہ بھی ضروری قرار دیا گیا ہے کہ فی کس آمدنی کا یہ معیار تسخیر کائنات یعنی سائنس و ٹیکنالوجی اور سوشل سائنسز کے علوم کے ذریعے حاصل کیا گیا ہو، نہ کہ قدرتی اور معدنی دولت کے ذریعے۔ اس لئے سعودی عرب یا کویت جتنے بھی مال دار ملک ہوں ، فی کس آمدنی بھی اچھی ہو، لیکن ترقی یافتہ نہیں کہلائے جاسکتے۔ اپنی اس اصل میں ترقی شاید کوئی برائی محسوس نہ ہوتی ہو کہ فی کس آمدنی میں اضافہ یا سائنس و ٹیکنالوجی میں اضافہ میں کیا برائی ہے؟ مگر ہم جس عنوان پر بات کرنا چاہتے ہیں وہ ہے:ترقی یا نجات ؟ بطور مقصد ِحیات یعنی انسانی زندگی کا مقصود کیا ہے؟ انسان کی کامیابی کا معیار کیا ہے؟ فوزو فلاح کا پیمانہ اور میزان کیا ہے؟ فرد کی سطح پر ہو یا معاشرہ یا حکومت کی سطح پر، کون سافرد کامیاب و کامران کہلائے گا؟ کون سا معاشرہ فوز و فلاح پائے گا اور کون سی ٭ صدر اسلامک سنٹر MDA چوک ، ملتان