کتاب: محدث شمارہ 338 - صفحہ 50
ناکیاں ۔ یہ چیز اتنی ننھی سی مخلوق ہے کہ اگر دنیا کے تمام ذی حیات انسانوں کے جینز کو ایک جگہ جمع کرلیا جائے تو وہ سب زیادہ سے زیادہ درزی کی انگشتری میں سما جائیں گے۔ تاہم یہ صرف خوردبین سے نظر آنے والی مخلوق اور ان کے ساتھی کروموسومز(Chromosomes) ہر زندہ جسم میں وجود رکھتے ہیں اور تمام انسانی، حیوانی اور نباتاتی مخلوق کی اَصل ہیں ۔ یہ جینز ان تمام مختلف آباؤ اجداد کی وراثت کو کیونکر محفوظ کرلیتے ہیں اور ہر ایک کی تفصیلات کو اتنی بے حقیقت جگہ میں کیسے سمو لیتے ہیں ؟ حقیقتاً ارتقا یہیں سے شروع ہوتا ہے؛ جسم کے اس خانہ کے اندر سے جو جینز کو لیے ہوئے چلتا ہے۔ لاکھوں ایٹم خوردبینی جینز کی صورت میں بند ہوکر قطعی طور پر کرۂ ارض کی پوری زندگی پر کیسے حکمرانی کرتے ہیں ؟ یہ ایک مثال ہے۔ اکمل ترین ہوشیاری کی اور ایک ایسا نظام ہے کہ جو فقط ایک خالق ذہن ہی کرسکتا ہے۔ یہاں دوسرا کوئی قیاس کام نہیں دے سکتا۔ 6.جسمانی تحدید و بندش قدرت کی کفایت شعاری سے ہم یہ سمجھنے پر مجبور ہیں کہ صرف ایک لامحدود عقل ہی اس کی پیش بینی کرسکتی ہے اور ایسی تیز فہمی کے ساتھ کفایت شعاری سے کام لے سکتی ہے۔ کئی سال پہلے کی بات ہے کہ آسٹریلیا میں تھوہر کا ایک پودا لگایا گیا۔ چونکہ آسٹریلیا میں اس کے دشمن کیڑے موجود نہیں تھے، اس لیے وہ وہاں پر جلد ہی غیر معمولی طور پر بڑھنے لگا۔ اس کی چونکا دینے والی کثرت نے یہاں تک طول کھینچا کہ اس پودے نے انگلستان جتنا لمبا چوڑا رقبہ گھیر لیا اور یہاں کے باشندے شہروں اور دیہاتوں سے نکلنے پر مجبور ہوگئے۔ ان کے کھیت برباد ہوگئے۔ یہاں تک کہ کیڑوں مکوڑوں کے ماہرین دنیا میں اس کا علاج دریافت کرنے کے لیے نکل کھڑے ہوئے۔ بالآخر اُنہوں نے ایک کیڑا پا ہی لیا کہ جس کی زندگی کا انحصار فقط تھوہر کے کھانے پر ہے اور وہ دوسری کوئی چیز نہیں کھاتا۔ وہ آسٹریلیا میں آزادی کے ساتھ تھوہر کھا سکتا تھا جہاں اس کا کوئی دشمن بھی نہیں تھا۔ پس حیوان نے نباتات پر فتح پائی اور آج تھوہر کی بیماری کو ختم کردیا گیا ہے اور اس کے ساتھ ہی اس کیڑے کو بھی صرف اس کی تھوڑی سی تعداد کو رکھ لیا گیا ہے تاکہ وہ ہمیشہ کے لیے تھوہر کو قابو میں رکھ سکے۔ اس قسم کی روک اور توازن کے