کتاب: محدث شمارہ 338 - صفحہ 5
شکایت کررہے ہیں ۔ ۲۰ مئی کو مقبولِ عام ویب سائٹ ’فیس بک‘ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خاکے بنانے کے عالمی دن منانے کا اعلان کردیا جس پر لاہو رہائیکورٹ نے فیس بک اور پھر یوٹیوب نامی ویب سائٹس پر پاکستان میں پابندی عائد کر دی۔ اسلام کے بارے اپنی من مانی کو گوارا نہ کرنے اور ان ویب سائٹس کو بند کرنے پر مغربی دانشورپاکستان کو شدیدتنقید کا نشانہ بنائے ہوئے ہیں ۔ تہذیبوں کی جنگ اور سماجی ومعاشرتی رویوں کا تضاد و اختلاف ہر جگہ سرچڑھ کر بول رہا ہے!! تہذیبی تصادم کے اس مرحلے میں دراصل مسلمان ایسی اقوام کی عسکری اور ابلاغی جارحیت و انتہا پسندی کا شکار ہیں جن کا دعویٰ مذاہب کی آزادی، رواداری اورمفاہمت کا ہے جب کہ خود وہ دنیا بھر کو انسانی حقوق اور تہذیب کا درس دیتے نہیں تھکتے!
خواتین کا حجاب ونقاب تو یوں لگتا ہے کہ فی زمانہ یورپی اقوام کا سب سے بڑا مسئلہ بن چکا ہے۔ یورپ میں دو کروڑ سے زائد مسلمان آباد ہیں ، جن میں سے بلجیم میں ۶ لاکھ،جرمنی میں ۳۰، برطانیہ میں ۲۰ اور فرانس میں ۶۰ لاکھ مسلمان قیام پذیر ہیں ۔ فرانس کے ۳۰ لاکھ مسلمان تو باقاعدہ یہاں کی شہریت بھی رکھتے ہیں جو ماضی میں فرانس کے مقبوضہ ’الجزائر‘ کو اس کا باقاعدہ حصہ قرار دیئے جانے کی بنا پر فرانس میں ہی نقل مکانی کرآئے تھے۔یورپ کی سب سے بڑی مسلم اقلیت یہاں ہی اقامت گزیں ہے۔ فرانس اپنے سیکولرنظامِ حکومت پر نازاں ہونے کے باوجود ’مسلم تشخص‘ کے نظریاتی مسئلہ سے بری طرح دوچار ہے۔ یہاں حجاب ونقاب اور برقعہ کا معاملہ گذشتہ پانچ برس سے مرکزی مسئلہ بنا ہوا ہے اور فرانس اس سلسلے میں پورے یورپ کی قیادت کررہا ہے۔ فرانسیسی حکومت کے بیانات آئے روز اخبارات میں شائع ہوتے ہیں اور حکومتی ذمہ داران سے ہر پلیٹ فارم پر اس ضمن میں سوال کیا جاتا ہے۔
٭ ۴ستمبر۲۰۰۳ء کو بڑے طویل بحث مباحثے کے بعد فرانسیسی حکومت نے پبلک مقامات اورسرکاری اداروں میں سکارف(سرڈھانپنے) کی ممانعت کا قانون منظور کیا گیا۔ قانون کو مؤثر بنانے کے لئے اس کی خلاف ورزی کی صورت میں جرمانہ اور قید کی سزا تجویز کی گئی ۔
٭ فرانس کے ا س قانون کے بعد دیگر یورپی ممالک میں بھی یہ بحث شروع ہوگئی، اور اکتوبر ۲۰۰۶ء میں برطانیہ کے وزیر خارجہ جیک سٹرا اور دیگر حکومتی اراکین نے برطانیہ میں بھی اسے زیر بحث لانے کی تجویز پیش کی۔ سکارف سے آگے بڑھتے ہوئے برطانوی وزیر خارجہ