کتاب: محدث شمارہ 338 - صفحہ 49
مخلوق بلوغت کی عمر کو پہنچتے ہی ہر جوہڑ، تالاب اور دریا وغیرہ ہر جگہ سے یورپ کے ہزار ہا میل کے سمندر کا سفر طے کرکے برمودہ کے قریب اَتھاہ سمندری گہرائیوں میں پہنچ جاتی ہے۔ وہاں یہ کھاتی پیتی اور مرجاتی ہے۔ اس کے بچے جن کے پاس بظاہر کسی بات کے جاننے کا کوئی ذریعہ نہیں ہوتا، سوائے اس کے کہ وہ پانی کی بے پناہ وسعتوں میں ہیں ، اس کے باوجود واپس چل پڑتے ہیں اور نہ صرف اسی ساحل کا راستہ اختیار کرتے ہیں جہاں سے ان کے والدین آئے تھے بلکہ وہاں سے وہ ان آبائی دریاؤں ، جھیلوں اور چھوٹے چھوٹے جوہڑوں میں پہنچ جاتے ہیں اور یوں پانی کا ہر خطہ ہمیشہ اِیل مچھلی سے بھرا رہتا ہے۔ ٭ ایک بھِڑ ایک پتنگے کو بے بس کرلیتی ہے۔ پھر زمین میں ایک سو سوراخ کھودتی ہے۔ پھر پتنگے کو ٹھیک ایسی جگہ پر ڈنک مارتی ہے تاکہ وہ مرنہ جائے بلکہ صرف بے ہوش ہو اور محفوظ گوشت کی صورت میں زندہ رہے۔ پھر بھِڑ سلیقے کے ساتھ انڈے دیتی ہے تاکہ اس کے بچے جب انڈوں سے نکل آئیں تو پتنگے کو مارے بغیر اسے کھاسکیں ۔ کیونکہ ان کے واسطے مرے ہوئے پتنگے کا گوشت مہلک ہوتا ہے۔ پھر ماں وہاں سے اُڑ جاتی ہے اور باہر جاکر مرجاتی ہے اور واپس آکر کبھی اپنے بچوں کو نہیں دیکھتی۔ یہ پُراسرار ترکیبیں سیکھنے سکھانے سے نہیں آتیں بلکہ یہ فطرت میں سمو دی جاتی ہیں ، جس فطرت کو کسی عظیم الشان خالق نے تخلیق کیا ہے۔ 4.روشنی کی کرن انسان کو عقل حیوانی سے بڑھ کر قوتِ استدلال بھی عطاہوئی ہے۔ کسی دوسرے حیوان نے اپنی قابلیت کا کبھی اتنا ریکارڈ بھی نہیں چھوڑا ہے کہ وہ دس تک گن سکا ہو یا دس کے معنی ہی جانتا ہو،لیکن اس کے مقابلہ میں انسانی دماغ کی استعداد حیران کن ہے۔اس چوتھے نکتے کی زیادہ وضاحت کی ضرورت نہیں ہے۔ انسانی استدلال کی بدولت ہم اس بات کے امکان کو جان سکتے ہیں کہ ہم وہی کچھ ہیں جو کچھ کہ ہم ہیں ، کیونکہ ہمیں اس عقل سے ہی تو روشنی کی ہر کرن حاصل ہوئی ہے۔ 5.جینز کی حکمرانی تمام جانداروں کے وجود کے انتظار کا انکشاف ایک فطری اُصول کے ذریعے ہوا ہے۔ جیسے ڈارون نہیں جانتا تھا،لیکن جسے آج ہم جانتے ہیں مثلاً جینز(Genes) کی حیرت