کتاب: محدث شمارہ 338 - صفحہ 48
2. زندگی کیا ہے؟ حصولِ مقصد کے لیے زندگی کا پُر اَز وسائل ہونا ایک عقلِ کل کی شہادت دیتا ہے۔ زندگی بجائے خود ہے کیا؟ کسی نے اس بات کی گہرائی کا اندازہ نہیں لگایا۔ زندگی نہ تو وزن رکھتی ہے نہ جسامت، البتہ یہ قوت رکھتی ہے۔ ایک اُبھرتی ہوئی جڑ چٹان میں شگاف کردیتی ہے۔ زندگی نے پانی، زمین اور ہوا کو مسخر کرلیا ہے۔ عناصر پر قابو پاکر اُنہیں پگھلنے اور اختلاط کی باہمی اصلاح پر مجبور کردیا ہے۔ اب ذرا چمک دار، بیلی نما، ہلنے والے پروٹوپلازم قطرے کو ملاحظہ کیجئے جو سورج سے قوت حاصل کرتا ہے اور جو تقریباً ناقابل دید ہوتا ہے۔ یہ ایک ننھی سی واحد اور ایک ذرا سی چمکدار یا دھندیالی بوند اپنے اندر زندگی کا ایک جرثومہ رکھتی ہے اور چھوٹی بڑی ہر جاندار شے تک زندگی کو پہنچا دینے کی طاقت بھی رکھتی ہے۔ اس ننھی سی بوند کی طاقتیں ہمارے نباتات،جانوروں اور انسانوں کی طاقتوں سے زیادہ ہیں ۔ کیونکہ تمام زندگی اسی کی طرف سے آتی ہے۔ قدرت سے از خود زندگی پیدا نہیں ہوگئی۔ آگ سے جھلسی ہوئی چٹانیں اور بے نمک سمندر اِن پیچیدہ ضروریات کو پورا نہیں کرسکتے تھے۔ پھر وہ کون ہے جو اِنہیں یہاں لے آیا ہے؟ 3. پُراسرار ترکیبیں عقل حیوانی بلا شبہ ایک بہترین خالق کی شہادت دیتی ہے جس نے اس بے سہارا مخلوق کی ذات کے اندر یہ مادہ ودیعت کیا ہے۔ ٭ سالمن نامی چھوٹی سی مچھلی کئی سال سمندر میں بسر کرنے کے بعد اپنے دریاؤں میں واپس آتی ہے اور دریا کی اُسی جانب کو سفر کرتی ہے جہاں وہ نالہ آکر گرتا ہے جس میں برسوں قبل اس کی پیدائش ہوئی تھی۔ کون ہے جو اُسے ٹھیک اسی مقام پر واپس لاتا ہے؟ اگر آپ اسے کسی دوسرے نالے میں منتقل کردیں تو اُسے فوراً پتہ چل جائے گا کہ وہ اپنے راستے سے دور جاپڑی ہے اور وہ واپس دریا کی طرف جاکر پھر اپنا راستہ تلاش کرنے کے لیے جدوجہد کرے گی اور ازسر نو بہاؤ کے خلاف تیر کر اپنی قسمت کو بہترین انجام تک پہنچائے گی۔ ٭ اسی طرح اِیل (Eel)نامی مچھلی کے راز کو سمجھنا اور بھی مشکل ہے۔ یہ حیرت ناک