کتاب: محدث شمارہ 338 - صفحہ 44
نہیں ہے۔‘‘ 4. بدایۃ المجتہدمیں علامہ ابن رُشد نے چوری کی حد کے بارے میں ائمہ اَربعہ کی متفقہ رائے یہ لکھی ہے کہ کافر پر بھی اس کا اطلاق ہوگا لکھتے ہیں : ’’اتفقوا علی أن مِن شرطِہ أن یکون مکلفًا،وسوائً کان حرًّا أو عبدًا، ذکرًا أو أنثیٰ،مسلمًا أو ذمیًا‘‘ (۲/۷۰۴) ’’اس پر اتفاق ہے کہ جس شخص پر چوری کی حد جاری کی جائے، اُس کا مکلف(عاقل بالغ) ہونا ضروری شرط ہے،چاہے وہ شخص آزاد ہو یا غلام، مرد ہو یا عورت اور مسلمان ہو یا ذمی کافر۔‘‘ 5.موسوعۃ الاجماع في الفقہ الاسلامي میں یہ اجماعی حکم لکھا ہے کہ ’’إن إجماع المسلمین علی أن المسلم تقطع یدہ إذا سرق مالاً لمسلم، أو لغیرمسلم،وعلی أن غیر المسلم یقطع بسرقۃ مال المسلم ومال غیرالمسلم‘‘ (۱/۳۴۲) ’’اس پر اہل اسلام کا اجماع ہے کہ ایسے مسلمان شخص کا ہاتھ کاٹا جائے گا جو کسی دوسرے مسلمان یا غیر مسلم کا مال چوری کرے۔ اسی طرح ایسے غیر مسلم شخص کا بھی ہاتھ کاٹا جائے گا جو کسی مسلمان یا غیر مسلم کا مال چوری کرے۔‘‘ ٭ مولانا امین احسن رحمہ اللہ اصلاحی بھی ذمیوں سمیت تمام شہریوں پراسلامی ریاست کے شرعی قوانین کی تنفیذ کو درست سمجھتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’اسلامی حکومت میں ملکی قانون (Law of Land) اسلامی قانون ہی ہوگا اور ظاہر بات ہے کہ اگر ایسا نہیں ہوگا تو ریاست کے اِسلامی ہونے کے سرے سے کوئی معنی ہی نہیں ہیں ۔ مگر، جیسا کہ اُوپر واضح کیا جاچکا ہے ریاست یا اس کا قانون غیر مسلموں کے مذہب، تہذیب اور تمدن اور پرسنل لا میں دخیل نہیں ہوں گے۔‘‘ (اِسلامی ریاست از مولانا اصلاحی:ص۲۱۹) ٭ مولاناسید ابوالاعلیٰ مودودی رحمہ اللہ بھی ایک اسلامی ریاست میں ذمیوں پر اسلامی حدود و تعزیرات کے نفاذ کو ضروری قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’تعزیرات کا قانون ذمی اور مسلمانوں کے لیے یکساں ہے اور اس میں دونوں کا درجہ مساوی ہے۔ جرائم کی جو سزا مسلمان کو دی جائے گی، وہی ذمی کو دی جائے گی۔ ذمی کا مال مسلمان چرا لے یا مسلمان کا مال ذمی چرا لے، دونوں صورتوں میں سارِق کا ہاتھ کاٹا جائے گا۔ ‘‘ (اِسلامی ریاست از مولانامودودی رحمہ اللہ :ص۶۰۶)