کتاب: محدث شمارہ 338 - صفحہ 43
(A Complete Code of Life) ہے، جو اسلامی ریاست کا دستورِ مملکت ہے اورجو دنیاوی و اُخروی زندگی کی فلاح کا ضامن ہے۔ فقہاے اسلام کے نزدیک اسلامی ریاست کا ملکی قانون(Public Law) وہاں کے تمام مسلم اور غیرمسلم شہریوں پرنافذ ہوتا ہے۔البتہ غیر مسلموں کو اُن کے شخصی قانون پرعمل کرنے کی پوری آزادی حاصل ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر چوری کے جرم میں ہاتھ کاٹنے کی سزا شرعی قانون ہے اور یہ اسلامی ریاست کا ملکی قانون ہے جس میں اگر کوئی مسلمان چوری کرے گا تو اس پر بھی یہ حد نافذ ہوگی اور اگر کوئی غیر مسلم چوری کا ارتکاب کرے گا تو وہ بھی یہی سزا پائے گا : 1.امام ماوردی رحمہ اللہ اپنی شہرہ آفاق کتاب الأحکام السلطانیۃ میں چوری کی حد کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’ویستوی في قطع السرقۃ الرجل والمرأ ۃ والحر والعبد والمسلم والکافر‘‘ (ص۲۸۴) ’’چوری کے جرم پر ہاتھ کاٹنے کی سزا ہر مجرم کو دی جائے گی خواہ وہ مجرم مرد ہو یا عورت ، آزاد ہو یا غلام اور مسلمان ہو یا کافر۔‘‘ 2.تفسیر قرطبی میں ہے کہ ’’ولا قطع علی صبي ولا مجنون،ویجب علی الذمي والمعاھد‘‘(۳/۱۶۸) ’’چوری کے جرم پر بچے اور پاگل کا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا،اور ذمی اور معاہد(غیرمسلموں ) کا ہاتھ کاٹنا واجب ہے۔‘‘ 3. امام ابن قدامہ حنبلی رحمہ اللہ اپنی مشہور کتاب المغنيمیں لکھتے ہیں کہ ’’ویُقطع المسلم بسرقۃ مال المسلم والذمي،ویُقطع الذمي بسرقۃ مالھما،وبہ قال الشافعي،وأصحاب الرأي ولا نعلم فیہ مخالفًا‘‘ (۱۲/۴۵۱) ’’کوئی مسلمان جب کسی مسلمان یا ذمی کا مال چوری کرے گا تو اُس کا ہاتھ کاٹا جائے گا اور کوئی ذمی جب کسی مسلمان یا ذمی کا مال چوری کرے گا تو اُس کا ہاتھ بھی کاٹا جائے گا۔ امام شافعی رحمہ اللہ اور دوسرے اصحابِ رائے کا یہی قول ہے اور اس بارے میں کسی کا اختلاف ہمارے علم میں