کتاب: محدث شمارہ 338 - صفحہ 40
کیونکر رضامندی اور اتفاقِ رائے ہوگیا، جبکہ اس سے قبل علما کے ۲۲ نکات میں صدر کو یہ استثنا دینے کی ممانعت موجود تھی۔ البتہ جب جنرل ضیاء الحق برسرِ اقتدار آئے تو اس آرٹیکل کے متعلق رائے زنی کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ اسلامی نظریاتی کونسل نے بھی سفارش کی کہ اس میں مناسب ترمیم کی جائے۔ ۱۹۸۵ء میں جب آئین بحال ہوا اور آٹھویں ترمیم پیش کی گئی تو آرٹیکل۲۴۸ کو جوں کا توں برقرار رکھا گیا۔ غالباً جنرل ضیاء الحق بطور صدرِ مملکت ، اس کے برقرار ہنے میں زیادہ عافیت محسوس کرتے تھے۔ آج بھی ہمارے جمہوری دانشور اس بات پر بہت کم غور کرتے ہیں کہ آرٹیکل۲۴۸میں صدر کی ذات کو جو استثنا حاصل ہے، اس کا حقیقی فائدہ دراصل ماضی کے فوجی آمروں کو ہی حاصل ہوا جو صدرِ مملکت کے عہدے پر فائز تھے۔ جنرل ضیاء الحق اور جنرل مشرف نے بطورِ صدر بہت سے اقدامات اِسی استثنا کی وجہ سے اُٹھائے۔راقم الحروف کا خیال ہے کہ جنرل مشرف نے جامعہ حفصہ کی معصوم طالبات کا قتلِ عام اور نواب اکبر بگٹی کا قتل جس بے خوفی سے کیا، اُس کے ذہن میں اِس استثنا کا تصور ضرور کام کررہا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ان واقعات کی بنیاد پر اس کے خلاف ایف آئی آر درج کرانے کی اجازت نہ دی گئی۔ اگر سیکولر دستوری روایات کو ہی بنیاد بنایا جائے تو پارلیمانی جمہوری نظام میں اس طرح کے استثنا کا مستحق ترجیحا ً وزیراعظم کو ہونا چاہیے۔ کیونکہ صدرمملکت کے ریاستی سربراہ ہونے کی حیثیت محض ایک خیالی پیکر سے زیادہ کچھ نہیں ۔ جناب ایس ایم ظفر نے ایک ٹی وی شو میں ارشاد فرمایا کہ دورِ حاضر کی ریاستوں کے دساتیر میں بھی آرٹیکل۲۴۸جیسی دفعات شامل ہیں ۔ایس ایم ظفر قابلِ احترام ماہر قانون ہیں ، لیکن ہمارا خیال ہے کہ ان کی یہ رائے قیاس مع الفارق کا درجہ رکھتی ہے۔ کیونکہ دیگر ریاستوں کے آئین سیکولر نوعیت کے ہیں اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کے مطابق اسلام کو ریاستی مذہب کا درجہ حاصل ہے اور یہاں قرآن و سنت کی حیثیت برتر ہے۔ آئین کے متعلق تشریح کا حق سپریم کورٹ کو حاصل ہے، لہٰذا وہی اس دستوری ابہام کو واضح تشریح کے ذریعے دور کرسکتی ہے، اس معاملے میں انفرادی آرا بہرحال حتمی اور قطعی نہیں ہیں ۔ یہ بات فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ سیکولر دساتیر میں بھی سربراہِ ریاست کو اس طرح کوئی