کتاب: محدث شمارہ 338 - صفحہ 39
اور سولھویں صدی میں جب چرچ اور بادشاہ کے درمیان اختیارات اور قانونی برتری کے حصول کی کشمکش عروج پر تھی، یورپ کے سیاسی فلاسفہ نے بادشاہوں کے لیے ’خدائی حقوق‘ کے نظریے کا پرچار کیا تھا۔اس نظریے کے مطابق بادشاہ سے غلطی یا جرم کا صدور نہیں ہوسکتا، اِس لیے اس کے خلاف کوئی عدالتی کاروائی بھی نہیں ہوسکتی۔ اُسی زمانے میں برطانیہ میں بادشاہ اور پارلیمنٹ کے درمیان کشمکش بھی برپا تھی جو بالآخر ۱۶۶۸ء کے ’سنہری انقلاب‘ پر منتج ہوئی جب انگریزوں نے ہمیشہ کے لئے تسلیم کرلیا کہ پارلیمنٹ کو قانون سازی میں بالادستی حاصل ہے۔ برطانیہ میں جمہوریت کا ارتقا ایک خاص نکتے پر آکر ٹھہر گیا۔ برطانوی قوم کی مخصوص نفسیات کی وجہ سے بادشاہت کا ادارہ قائم رکھا گیا۔ بادشاہ سے باقی سب اختیارات چھین لیے گئے، البتہ اُس کا یہ استحقاق باقی رکھا گیا کہ اُس کے خلاف کوئی قانونی یا عدالتی کاروائی نہیں ہوسکتی۔ بظاہر یہ جمہوریت کے تصورِ مساوات کے منافی ہے!! مسلمانوں کی تاریخ کے دورِ ملوکیت میں خلیفۃ المسلمین یا سلطان کے لیے ’ظل اللہ فی الارض‘کا تصور موجود رہا ہے۔ اب بھی بعض قدیم خطبات میں یہ روایتی الفاظ ملتے ہیں ۔ مگر کسی بھی دور میں مسلمانوں کے بادشاہوں نے اپنے آپ کو شریعت سے بالاتر سمجھا ،نہ عدالتوں کے سامنے پیش ہونے کے لیے کسی استثنا کا سہارا تلاش کیا۔ یہی وجہ ہے کہ خلفاے راشدین کے بعد بھی ہم دیکھتے ہیں کہ عباسی خلیفہ ہارون الرشید، سپین میں عبدالرحمن سوم، برصغیر میں علاؤالدین خلجی، التتمش اور اورنگ زیب عالمگیر جیسے مقتدر بادشاہ بھی قاضی کی عدالتوں میں پیش ہوتے رہے۔ (اس موضوع پر دسمبر۲۰۰۹ء کے ’محدث‘ میں ایسے متعدد تاریخی واقعات اور شرعی اَحکام جمع کردیے گئے ہیں ) ۱۹۷۳ء میں جب پاکستان کا آئین بنایا گیا تو اس میں آرٹیکل۲۴۸/اے بھی شامل کیا گیا جو صدر کو فوجداری مقدمات میں استثنا عطا کرتا ہے۔ گمان یہی ہے کہ اس معاملے میں بعض جدید ریاستوں کی دستوری روایات کو برقرار رکھا گیا۔ ۱۹۷۳ء کی قومی اسمبلی میں مولانا مفتی محمود، مولانا شاہ احمد نورانی، مولانا غلام غوث ہزاروی اور جماعت ِ اسلامی کے اراکین بھی شامل تھے۔یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ ان کی موجودگی میں آئینِ پاکستان کے اس آرٹیکل پر