کتاب: محدث شمارہ 338 - صفحہ 38
اور حقائق اگر پیش کردیے جائیں تو مناسب ہوگا۔ یہ بات تو سب کو معلوم ہے کہ آئینِ پاکستان کے آرٹیکل۲کی رُو سے اسلام، اسلامی جمہوریہ پاکستان کا ریاستی مذہب ہے۔ آرٹیکل ۲۲۷ کے مطابق پاکستان میں کوئی ایسا قانون نہیں بنایا جاسکتا جو قرآن و سنت سے مطابقت نہ رکھتا ہو۔ یہ آرٹیکل یہ بھی کہتا ہے کہ اگر موجودہ قوانین قرآن و سنت سے مطابقت نہیں رکھتے تو اُنہیں قرآن و سنت کے مطابق ڈھالا جائے گا اور مطابقت پیدا کی جائے گی۔ آرٹیکل۴۱ کے مطابق صدر کے لیے مسلمان ہونے کی شرط ہے، پھر قراردادِ مقاصد جسے اب آئین کے قابلِ تنفیذ آرٹیکل (۲/اے) کا درجہ حاصل ہے،بے حد وضاحت سے اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کا اعلان کرتی ہے۔ یہ سب باتیں معروف ہیں ، البتہ آئین میں صدرِ پاکستان کے عہدے کے لیے جو حلف کی عبارت دی گئی ہے، اُس کا تذکرہ کم کم ہوتا ہے۔ اس عبارت میں جہاں حلف لینے والے صدر کو توحید ِباری تعالیٰ اور قرآنِ مجید کو آخری الہامی کتاب اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ختمِ نبوت اور یومِ آخرت پر ایمان کا اقرار کرنا پڑتا ہے، وہاں قرآنِ مجید کے ’تمام تقاضوں اور تعلیمات‘ پر عمل پیرا ہونے کا بھی حلف اٹھانا پڑتا ہے۔ ’تمام تقاضے اور تعلیمات‘ کے اندر سب کچھ آجاتا ہے۔ مختصراً یہ ہے کہ آئینِ پاکستان کی رُو سے بھی قرآن و سنت کو بالادستی حاصل ہے۔ اس تناظر میں فوزیہ وہاب کے مذکورہ بالا بیان کو دیکھا جائے تو وہ غیرمنطقی، غیرعقلی اور حددرجہ قابلِ اعتراض اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے مسلمانوں کے لیے ناقابلِ قبول ہے۔ فوزیہ وہاب کا یہ بیان بھی لاعلمی کا آئینہ دار ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں آئین نہیں تھا۔جنابِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کی ریاست کے قیام کے وقت ہی یہودیوں سے ’میثاقِ مدینہ‘ کی صورت میں معاہدہ فرمایا تھا۔ قرآن و سنت کے عظیم ضابطوں کو ہی خلافتِ راشدہ اور بعد کے اَدوار میں آئین کی حیثیت حاصل رہی،لہٰذا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو کسی الگ آئین کی ضرورت ہی نہ تھی۔شریعت ِاسلامیہ میں حاکمیت، عدل و انصاف، انتظامیہ اور دیگر اداروں کے لیے ہمیشہ سے واضح ضابطے موجود ہیں ۔ بادشاہوں کے ’خدا‘ ہونے اور خدا کا ’اوتار‘ یا ’ظلِ الٰہی‘ ہونے کا تصوربہت قدیم ہے۔ فراعنۂ مصر ، روم و یونان کے ’شہنشاہوں ‘ کے لیے یہ القابات استعمال ہوئے تھے۔ پندرھویں