کتاب: محدث شمارہ 338 - صفحہ 37
اسلامی تاریخ میں مسلمانوں کی سیاسی فکر کا یہ بنیادی نکتہ رہا ہے اور اس کے متعلق کبھی شکوک و شبہات یا ذہنی تحفظات وارد نہیں کیے گئے۔ اسلامی تاریخ میں جن برگزیدہ ہستیوں نے اسلام کی سیاسی فکر پر قلم اُٹھایا ہے، ان میں الماوردی، نظام الملک طوسی، امام غزالی، ابنِ تیمیہ اور شاہ ولی اللہ دہلوی رحمہم اللہ تعالیٰ کے اسماے گرامی قابلِ ذکر ہیں ۔ ان سب مفکرینِ اسلام نے قرآنِ مجید کو اسلام کی سیاسی فکر اور نظامِ ریاست کا محور و مرکز قرار دیا ہے۔ علامہ محمد اقبال اور قائداعظم اپنے اسلاف کی اسی تابندہ فکر کے علم بردار تھے۔ ۲۳/مئی کو دن کے تقریباً ۱۱بجے میڈیا نے فوزیہ وہاب کا بیان نشر کیا۔علماے دین، ماہرینِ قانون، سیاستدانوں اور دانشوروں کی طرف سے فوری احتجاج بھی سامنے آیا۔ میڈیا نے اس احمقانہ بیان کا اتنا مؤثر تعاقب کیا کہ شام ہوتے ہی فوزیہ وہاب نے پسپائی اختیار کرنے اور معذرت پیش کرنے میں ہی عافیتجانی۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس معاملے میں اس نے قدرے عقل مندی سے کام لیا اور مزید تنقید سے وقتی طور پر نجات حاصل کرلی۔ فوزیہ وہاب نے وضاحت کی کہ وہ ایک راسخ العقیدہ مسلمان ہے اور اُس نے قرآنِ مجید پر آئین کو کبھی فوقیت نہیں دی۔ اُس نے اپنے بیان میں کہا کہ وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا بے حد احترام کرتی ہے۔ البتہ اُس نے اپنے وضاحتی بیان میں یہ بھی کہا کہ اُس کا بیان سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا گیا ہے۔ نجانے ’سیاق و سباق‘ سے موصوفہ کیا مراد لیتی ہیں ؟!! ہماری رائے میں اُس نے جو بات کی تھی، اُس کو میڈیا نے بالکل درست سیاق وسباق میں سمجھا اور پیش کیا۔ درحقیقت پریس کانفرنس کے دوران ایک صحافی نے صدرِ مملکت کے خلاف عدالتی کاروائی کے متعلق استثنا کو موضوع بناتے ہوئے سوال کیا کہ اگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو عدالت میں بلایا جاسکتا ہے تو صدرِ پاکستان کو کیوں نہیں ؟ اُس صحافی نے اپنے سوال کی تائید میں بیرسٹر اعتزاز احسن کے دلائل کا حوالہ بھی دیا جو اُنہوں نے سپریم کورٹ کے سامنے دیے تھے۔ بیرسٹر صاحب نے صدرپرویز مشرف کے خلاف دلائل دیتے ہوئے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی مثال دی تھی۔ بہرحال سیاق و سباق واضح ہے، البتہ اس پر مزید بات کی ضرورت شاید نہیں ہے۔ یہ موضوع شاید آنے والے دنوں میں بھی زیر ِ بحث رہے۔ اس لیے کچھ مزید اُصولی باتیں