کتاب: محدث شمارہ 338 - صفحہ 36
محروم رکھا ہو۔ فوزیہ وہاب کو قائداعظم کے مندرجہ بالا بیانات کو غور سے پڑھنا چاہیے اور پھر فیصلہ کرنا چاہیے کہ اس کا بیان کس حد تک نامعقول ہے!! ٭ علامہ اقبال نے ۱۹۳۰ء میں خطبۂ الٰہ آباد میں مسلمانوں کے لیے الگ ملک کا تصور پیش کیا مگر یہ خیال کہ قرآن ملتِ اسلامیہ کا آئین ہے، آپ بہت پہلے پیش کرچکے تھے۔ فوزیہ وہاب جیسی سوچ کے حامل افراد کو اگر زبانی بتایا جائے تو شاید وہ یقین نہ کریں مگر یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ علامہ اقبال کی شہرۂ آفاق فارسی شاعری کی کتاب ’رموزِ بے خودی‘ جب ۱۹۱۸ء میں شائع ہوئی تو اقبال نے اپنی اس طویل نظم کے ایک حصہ کا عنوان ’آئینِ محمدیہ قرآن است‘رکھا۔اس عنوان کے تحت ۳۵/اشعار درج ہیں ۔ علامہ اقبال رحمہ اللہ کے درج ذیل معروف اشعار بھی ان میں شامل ہیں ۔ ملاحظہ فرمائیے : ملّتی را رفت چوں آئین ز دست مثل خاک اجزای اُو از ہم شکست ہستیِ مسلم ز آئین است و بس باطن دینِ نبیؐ این است و بس آن کتاب زندہ قرآنِ حکیم حکمت اُو لا یزال است و قدیم نوعِ انسان را پیام آخرین حامل او رحمتہ للعالمین نسخۂ ی اسرارِ تکوینِ حیات بی ثبات از قوتش گیرد ثبات گر تو می خواہی مسلمان زیستن نیست ممکن جز بہ قرآن زیستن ان اشعار کا آسان ترجمہ و مفہوم کچھ یوں ہے۔ اقبال فرماتے ہیں کہ ’’ جس قوم نے آئین ہاتھ سے جانے دیا، اس کے اَجزا خاک کی صورت پریشان ہوگئے۔ مسلمانوں کی قوت کا دارومدار آئین پر ہے (جو قرآن کریم کی صورت ہمارے پاس ہے)۔ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کا باطن بھی آئین میں ہے۔ قرآن ایک زندہ و تابندہ کتاب ہے، اس کی حکمت لازوال اور اس کی دانش قدیم ہے۔ یہ نوعِ انسانی کے لیے آخری پیغام ہے۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم جو رحمتہ للعالمین ہیں ، اس کے حامل ہیں ۔اگر مسلمانوں کی طرح جینے کا ارماں رکھتے ہو تو جان لو کہ قرآن کے علاوہ کوئی ہادی نہیں مل سکتا۔‘‘ علامہ محمد اقبال نے ملتِ اسلامیہ کے لیے قرآنِ مجید کو آئین قرار دیا ہے۔ درحقیقت پوری