کتاب: محدث شمارہ 338 - صفحہ 35
’’مسلمانو! ہمارا پروگرام قرآنِ پاک میں موجود ہے۔ ہم مسلمانوں کو لازم ہے کہ قرآنِ پاک غور سے پڑھیں ۔ قرآنی پروگرام کے ہوتے ہوئے مسلم لیگ مسلمانوں کے سامنے کوئی دوسرا پروگرام پیش نہیں کرسکتی۔‘‘ ٭ قائداعظم نے فرمایا: ’’مَیں نے قرآنِ مجید اور قوانینِ اسلامیہ کے مطالعے کی اپنے طور پر کوشش کی ہے۔ اس عظیم الشان کتاب کی تعلیمات میں انسانی زندگی کے ہر باب کے متعلق ہدایات موجود ہیں ۔ زندگی کارُوحانی پہلو ہو یا معاشرتی، سیاسی پہلو ہو یا معاشی، غرض یہ کہ کوئی شعبہ ایسا نہیں جو قرآنی تعلیمات کے اِحاطہ سے باہر ہو۔ قرآنِ کریم کی اُصولی ہدایت اور طریقِ کار نہ صرف مسلمانوں کے لیے بہترین ہے بلکہ اسلامی حکومت، غیرمسلموں کے لیے حسنِ سلوک اور آئینی حقوق کا جو حصہ دیتی ہے، اس سے بہتر تصور ناممکن ہے۔‘‘ ٭ مسلمانانِ پشاور کے عظیم اجتماع میں ۲۶/نومبر ۱۹۴۵ء کو قائداعظم نے جو بیان دیا، وہ بے حد جامع اور ہمارے لیے راہنمائی کے اُصول فراہم کرتا ہے۔ آپ نے فرمایا: ’’اسلامی حکومت کا یہ امتیاز پیشِ نظر رہنا چاہیے کہ اس میں اطاعت اور فرمائش کا مرجع اللہ کی ذات ہے جس کے لیے تعمیل کا مرکز ’قرآنِ مجید‘ کے اَحکام اور اُصول ہیں ۔ اسلام میں نہ اصلاً کسی بادشاہ کی اطاعت ہے نہ کسی پارلیمان کی، نہ کسی اور شخص یا ادارے کی، قرآنِ کریم کے احکام ہی سیاست ومعاشرت میں ہماری آزادی اور پابندی کی حدود متعین کرتے ہیں ۔ ’اسلامی حکومت‘دوسرے الفاظ میں ’’قرآنی اُصول اور احکام کی حکمرانی ہے۔‘‘ قائداعظم کے یہ اور دیگر اس طرح کے بیانات ’حیاتِ قائداعظم‘، ’قائداعظم کا مذہب و عقیدہ‘، ’قائداعظم کی تقاریر و بیانات‘ جیسی مستند کتابوں میں موجود ہیں ۔ یہ بیانات اس قدر واضح اور صریح ہیں کہ ان کی مزید وضاحت اور تعبیر کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ قائداعظم نے اپنے بیانات میں تواتر سے قرآنِ مجید اور شریعت ِاسلامیہ کو تیرہ سوسال پہلے کا آئین قرار دیتے اور اِسے دیگر اقوام کے سامنے نہایت فخر سے بیان کرتے تھے مگر افسوس آج کس قدر مغالطہ آمیز ور گمراہ کن بیانات دیے جارہے ہیں ۔ ایسے بیانات صرف وہ شخص دے سکتا ہے جس کی بدنصیبی نے اُسے اسلام، اسلامی تاریخ، اسلام کے سیاسی فلسفہ اور نظامِ حیات کے مطالعے سے