کتاب: محدث شمارہ 338 - صفحہ 34
کرتیں ۔ یہ ہمارا قومی المیہ ہے کہ ہمارے سیاست دان اور جدید تعلیم یافتہ افراد کی کثیر تعداد دیگر موضوعات کے متعلق تو بہت جانتی ہے مگر اس اہم موضوع کے متعلق اُنہوں نے جاننے کی شاید کبھیکوشش نہیں کی۔ ہماری خوش قسمتی ہے کہ اس موضوع پر مصورِ پاکستان، حکیم الامت علامہ محمد اقبال اور بانیِ پاکستان محمد علی جناحکے کئی ایک ارشادات ریکارڈ پر ہیں جن سے ہم راہنمائی حاصل کرسکتے ہیں ۔ قائداعظم کے درجنوں بیانات تاریخ کے صفحات پر محفوظ ہیں ۔ ٭ ۱۹۴۶ء کا واقعہ ہے، قائداعظم الٰہ آباد میں مسلم لیگ کے اجلاس کے سلسلے میں نواب سر محمد یوسف کے ہاں ٹھہرے ہوئے تھے کہ وکلا کا ایک وفد ملاقات کے لیے آیا۔ وہاں یہ مکالمہ ہوا: ارکانِ وفد: پاکستان کا دستور کیسا ہوگا؟ … کیا پاکستان کا دستور آپ بنائیں گے؟ قائداعظم: پاکستان کا دستور بنانے والا مَیں کون ہوں ؟ پاکستان کا دستور تو تیرہ سو سال پہلے ہی بن گیا تھا۔ ٭ ۲۷/جولائی ۱۹۴۴ء کی بات ہے۔ کھانے کی میز پر راولپنڈی مسلم لیگ کے صدر محمد جان بیرسٹر نے پوچھا: سر! آپ جو پاکستان بنانا چاہتے ہیں ، اس کا دستور کیا ہوگا؟ قائداعظم:یہ تو اس وقت کی دستور ساز اسمبلی کا کام ہے۔ مَیں کیا بتا سکتا ہوں ؟ محمد جان: اگر ہم فرض کرلیں کہ آپ کی موجودگی میں پاکستان بنتا ہے اور آپ اس ملک کے سربراہ ہیں تو پھر دستور کی حیثیت کیا ہوگی؟ قائداعظم: ’’اس کے متعلق پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ، آپ کے پاس تیرہ سوسال سے دستور موجود ہے۔‘‘ ٭ ایک اور موقع پر ارشاد فرمایا: ’’مجھ سے اکثر پوچھا جاتا ہے کہ پاکستان کا طرزِ حکومت کیسا ہوگا؟ پاکستان کا طرزِ حکومت متعین کرنے والا مَیں کون؟ یہ کام پاکستان کے رہنے والوں کا ہے اور میرے خیال میں مسلمانوں کے طرزِ حکومت کا آج سے ساڑھے تیرہ سوسال قبل قرآنِ حکیم نے فیصلہ کر دیا تھا۔‘‘ ٭ ۱۹۴۵ء میں ممبئی میں عیدالفطر کے موقع پر آپ نے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: