کتاب: محدث شمارہ 338 - صفحہ 33
قانون وقضا محمدعطاء اللہ صدیقی قرآن،آئینِ پاکستان اور قائد اعظم حکمت و دانش کا تقاضا ہے کہ انسان جس موضوع کے بارے میں زیادہ معلومات نہ رکھتا ہو، اُس کے متعلق کوئی بات کرتے ہوئے یا حتمی رائے کے اظہار سے گریز کرنا چاہیے۔ ورنہ اُس کی کم علمی اور جہالت اُس کے لیے رسوائی اور خجالت کا باعث بن سکتی ہے۔ مگر کچھ لوگ دانش مندی کے تقاضوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے انتہائی غیرمحتاط اور بے باکانہ انداز میں ایسے بیانات بھی داغ دیتے ہیں جس پر اُنہیں تنقید اور شرمندگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور وہ سننے والوں کے ذہن میں ایک ’پیکر ِجہالت‘ کا تاثر چھوڑتے ہیں ۔ ۲۳/مئی ۲۰۱۰ء کو فوزیہ وہاب نے میڈیا کے سامنے جو بیان دیا، اُس سے کچھ اسی قسم کا تاثر سامنے آتا ہے۔ یہ نہایت قابلِ اعتراض تھا جسے بجا طور پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور عین ممکن ہے کہ خود فوزیہ وہاب کے سیاسی کیرئیر پر اس نامعقول بیان کے دیرپا اَثرات مرتب ہوں ۔ فوزیہ وہاب نے صحافیوں کے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا : ’’حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں آئین نہیں تھا، صرف قرآنِ مجید تھا۔ آج کی عدالتیں صدرِ مملکت کا احتساب نہیں کرسکتیں ،کیونکہ اُنہیں آئینی تحفظ حاصل ہے، آئین نہ ہونے کی وجہ سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو عدالت میں طلب کیا گیا تھا۔ صدر عام شہری نہیں ہوتا۔ اگر صدرِ مملکت کو تحفظ نہیں دیا جائے گا تو وہ کام نہیں کرسکیں گے۔‘‘ (جیو ٹی وی ، اے آر وائی نیوز) اس بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ فوزیہ وہاب کو اسلام میں حاکمیت کے تصور اور اس تصور کے آئینِ پاکستان کی اَساس سے تعلق کے بارے شعور اور فہم نہیں ہے، ورنہ وہ یہ بیان کبھی نہ دیتی۔ معلوم ہوتا ہے کہ اسلامی تاریخ میں خلیفہ یا امیرالمؤمنین کی قرآن و سنت کے مقابلے میں ثانوی حیثیت کا بھی اُنہیں اندازہ نہیں ہے۔ ہمیں گمانِ غالب ہے کہ قائداعظم اور علامہ اقبال کے اس موضوع پر واضح بیانات پر بھی ان کی نگاہ نہیں رہی، ورنہ شاید وہ یہ بیان دینے سے گریز