کتاب: محدث شمارہ 338 - صفحہ 32
ہیں وہ بائیں بازو والے ہیں ۔ ان کو ایک آگ گھیرے میں لئے ہوئے ہے۔‘‘ شخص نے سورۃ الفجر کے عذاب کے تردید کی تھی، اس لئے فرمایا: کیا اس کا خیال ہے کسی غلام کی آزادی کسی یتیم اور مسکین کے کام نہیں آئی تھی۔اللہ نے آنکھیں دی تھیں کہ دیکھے کہ امداد کا حقدار کون ہے اور امداد کس وقت کرنی چاہیے۔ اسے دو بلندیاں دکھا دی تھی: ایک طرف اِسراف وتبذیر دوسری طرف بخل اور شح نفس ، بیچ کی کھائی موقع او رمحل پر مستحق امداد اور مصیبت زدہ کو دکھ جھیلنے کی رائے دینا اور خوش حالوں کو دکھی لوگوں پر ترس کھانے کی رائے دینا اور کلمۂ حق کا اقرار کرنا، اس کے لئے ایک زبان اور دو ہونٹ دیے۔ سورۃ اللیل اور مقصد خیرات اس سورہ میں اللہ نے فرمایا: 1.بخیل مستغنی کو جس نے الحسنیٰ( اچھی بات) کو جھٹلایا، دھمکی دی کہ ہم اس کے لئے سامان کر دیں گے عسریٰ (تکلیف وعسرت) کا اور اسے جہنم میں داخل کر دیں گے اور اسے الأشقیٰ کا لقب دیا۔ 2.الحسنیٰ(اچھی بات)کی تصدیق کرنے والے کو وعدہ دیا کہ اس کے لئے ہم الیسریٰ (آرام وراحت)کا سامان کر دیں گے اور اس کو الأتقی کا لقب دیا اور اس سے راضی ہونے کا وعدہ لیا،کیونکہ وہ: ﴿اَلَّذِیْ یُؤْتِیْ مَالَہُ یَتَزَکّٰی وَمَا لِاَحَدٍ عِنْدَہُ مِنْ نِّعْمَۃٍ تُجْزٰی إِلَّا ابْتِغَائَ وَجْہِ رَبِّہِ الْاَعْلٰی وَلَسَوْفَ یَرْضٰی﴾ (اللیل:۱۸ تا۲۱) ’’اپنا مال دیتا ہے پاک ہونے کے لئے۔ اس کے اوپر کسی کا احسان نہیں ہے جس کا بدلہ دیا جاتا ہے۔ سوائے اپنے عالی شان پروردگار کی خوشنودی کی خواہش کے اور عنقریب راضی ہو جائے گا۔‘‘ ان آیتوں نے صرفِ مال، خصوصاً خیرات کامقصد متعین کر دیا۔ نیکیاں احسان چکانے کے لئے کی جاتی ہیں ، اور یہ بھی ایک اچھی بات ہے، لیکن اللہ کو خوش کرنے والی نیکی وہی ہے جو محض اللہ کے لئے کسی کے ساتھ کی جائے۔