کتاب: محدث شمارہ 338 - صفحہ 30
ذوحجر تھا مگر اب تک وہ ایک مؤمن کامل اور ایک صدیق تھا، اس لئے اللہ نے فرمایا: ﴿یٰٓأَیُّتُہَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّۃُ٭ ارْجِعِیْ إِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَۃً مَّرْضِیَّۃً٭ فَادْخُلِیْ فِیْ عِبَادِیْ وَادْخُلِیْ جَنَّتِیْ ﴾ (الفجر:۲۷تا۳۰) ’’اے وہ جان جو بے تردّد ایمان والی ہے، اپنے ربّ کی طرف لوٹ پڑ تو اس سے راضی ہو، وہ تجھ سے راضی ہو۔ پھر میرے پرستاروں میں داخل ہو جا اور آجا میری جنت میں آجا۔‘‘ ذوحجر نے جو کہ اب نفس مطمئنہ تھا اور صدیق بن چکا تھا، یہ آیتیں سنیں اور بول اُٹھا کیا ہی عمدہ بشارت ہے۔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ بشارت تمہیں کو سنائی جانے والی بشارت ہے۔ عربی دستورِ میراث اس سورہ کی تمام آیتیں کسی قدر تشریح کے ساتھ آپ کے سامنے پیش کر دی گئیں ۔ اس سورہ کاسبق یہ ہے : 1. اکرام یتیم کا رواج نہ ہونا 2.اِطعام مسکین پر ایک دوسرے کو آمادہ نہ کرنا 3. میراث کو سب کا سب سمیٹ کھانا 4.مال کی بے حد محبت کرنا یہ چار جرائم ایسے ہیں جن کا مآل یہ ہونا چاہیے کہ جس قوم کی معاشی زندگی ان جرائم کے تاروپود سے بنی گئی ہو، وہ عاد وثمود اور فرعون اور موتفکہ والوں کے انجام کی حقدار ہو اور قیامت میں تو ان جرموں کی سزا مل کے رہے گی۔ ان جرائم اَربعہ میں سے بنیادی جرم حب ِ مال ہے، یہی جرم لِمّ تراث (ساری میراث سمیٹنے) کے دستور کی اوریتیموں اور مسکینوں کے ساتھ بے اعتنائی کی اصل ہے۔ لِم کے معنی ہیں سب سمیٹ لینا۔ سورۃ البلد اورفک ِرقبہ ایامِ جاہلیت کا ہر معاشی دستور حب ِمال کی چغلی کھاتا تھا، لیکن یہی وہ الزام جس کو عرب کبھی خوشی سے قبول نہیں کرسکتا تھا، جاہل ہونے پر اسے فخر تھا۔ابوجہل کا یہ لقب اسلامی تصور