کتاب: محدث شمارہ 338 - صفحہ 3
جاتی ہے۔ اگر اسلامی نظریات کو مسخ بھی کرلیا جائے تو تھوڑے ہی عرصے میں قرآنِ کریم کی بدولت حقیقی اسلام دوبارہ نکھر کر سامنے آجاتا ہے۔ اسلامی تعلیمات کی تاثیراتنی قوی اور انسانوں سے اسلام کے تقاضے اتنے فطری اور حقیقی ہیں کہ اسلام کی طرف مخلصانہ رجوع کرنے والا کوئی بھی انسان ان سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ اگر اسلام کی تفصیلات کو دیکھا جائے تو یہ دیگر مذاہب کے برعکس زندگی کے تمام دائرہ ہائے حیات کو گھیری نظر آتی ہیں ۔ اسلام اپنے ماننے والوں سے روزانہ پنج وقتہ نماز کی صورت میں اللہ کی بندگی کا تقاضا کرتا ہے، جبکہ دیگر مذاہب کا عبادتی تقاضا اس کا عشر عشیر بھی نہیں ہے۔ اسلام کو یہ تاثیر اور قوت اس کی بھرپور حفاظت نے عطا کی ہے جس کی ذمہ داری براہِ راست اللہ تعالیٰ نے روزِقیامت تک لی ہے۔
مغرب میں نت نئے نظریات کو پیش کرنے والوں کا خیال تھا کہ آخر کار ان کی بنا پر وہ ایک من پسند اورانسانی خواہشات کے تابع معاشرہ تشکیل دینے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ اس بے جا اعتماد کے نتیجے میں اُنہوں نے مسلم ممالک پر جارحانہ چڑھائی اور اپنے ہاں ہونے والی دنیوی ترقی کے بعد اس سے متمتع ہونے کے لئے آنے والے مسلمانوں کو روکنے کی کوئی ضرورت محسوس نہ کی، کیونکہ ان کے پیش کردہ نظریات اور اس کے نتیجے میں تشکیل پانے والا معاشرتی وسیاسی ڈھانچہ اُنہیں اس قابل نظر آیا کہ آخر کار یہ مسلمان بھی اس میں جذب ہو کر رہ جائیں گے، لیکن دیگر مذاہب کے برعکس مسلمانوں کی حد تک عملاً ایسا نہ ہوسکا۔ چنانچہ آج امریکہ ویورپ کی صورتحال یہ ہے کہ وہ اپنے معاشروں میں اسلام کے بڑھتے معاشرتی مظاہر سے بری طرح خوفزدہ نظر آتے ہیں ۔ امریکی ویورپی معاشروں میں بسنے والے مسلمانوں کو ان ممالک کے قوانین اور عدالتیں تو دبے لفظوں میں تحفظ فراہم کررہی ہیں لیکن ان ممالک کے بدلتے معاشرتی حالات پر نظر رکھنے والے سماجی ماہرین اپنے قانون و نظریہ کے برعکس، مسلمانوں کو اپنے تہذیبی بلکہ اسلامی مظاہر ترک کرنے کے لئے ہر بہانے کا سہارا لینے پر مجبور دکھائی دیتے ہیں ۔ ان حالات میں اہل مغرب کو اپنے دستور وقانون کی از سر نو تشکیل یا تعبیر جدید کی ضرورت محسوس ہورہی ہے۔
اکیسویں صدی میں اگر اس تہذیبی مباحثے کا جائزہ لیا جائے تو یورپ میں اسلام اور اس کے شعائر کے خلاف مختلف حوالوں سے معاشرتی مخاصمت کا ایک طویل سلسلہ نظر آتا ہے۔