کتاب: محدث شمارہ 338 - صفحہ 27
کے آثار میں وہاں گذرے ہوئے حوادث دیکھ آیا تھا اور دو کی جوڑی اور ایک اکلوتے سے داستان سن آیا تھا۔ اپنے معلومات لئے ہوئے یہ ذوحجر پیغمبر کے پاس پہنچا تو پیغمبر نے کہا: ’’وہ فجر جس سے توخوب واقف ہے، وہ دس راتیں جو تونے اس فجر کے بعد گذاریں ، دو کی جوڑی اور ایک اکلوتا اور رات کا پچھلا پہر جسے تو جانتا ہے، کیا تجھے کسی خوفناک حقیقت سے آگاہ کر چکی ہیں ؟‘‘ اب آپ تصور کر سکتے ہیں کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ذہن نے کیا جواب سوچا ہو گا۔ آپ ان کے ذہنی جواب کا اندازہ کر لیں تو آگے بڑھیں : مکی آیتوں کو پڑھنے سے پہلے تین قوموں کو اور ان کے مسکنوں کو جان لیں ۔ عادِ اُولیٰ اور عادِ اُخریٰ دو تھے، ایک کا مسکن اَحقاف تھا اورایک کا مسکن اِرم تھا۔ اوراسے عاد کے علاوہ ارم بھی کہا جاتاتھا۔ حضرت الیسع کا معاصر بادشاہ دمشق بن ہدو ایک شاہِ ارم تھا۔ قاضیوں کا معاصر بادشاہ کوشان رشعتیم ارم نہریم کا بادشاہ تھا۔حضرت موسیٰ کا معاصر بلعام باعور،ارم نہریم کا کاہن تھا۔ حضرت ابراہیم ؑ اوران کے خاندان کا وطن ارم نہریم تھا۔( تکوین :۴، معہ تکوین:۱۰) اس لئے حضرت یعقوب ارمی تھے۔ (تثنیہ۲۶:۵) حضرت ابراہیم کے بھائی بھتیجے حاران میں بستے تھے۔ (تکوین ۲۷:۴۳) اس شہر کا دوسرا نام فدانِ ارم تھا۔( تکوین ۲۵:۲۰،۲۸،۱) ارم نہریم قدیم نام تھا دو آبہ دجلہ وفرات کا جس میں حاران واقع تھا۔ یہیں کے قدما کا ذکر عادِ ارم کے نام سے قرآن میں آیا ہے۔ فدان کا لفظ عبرانی میں شاہی محل کا مرادف ہے۔ یہ محل اس طرح بنایاگیا تھا کہ چند عالی شان ستون کھڑے کر کے ان کو مسقف کر دیا گیا تھا۔ نزولِ قرآن کے زمانے تک اس فدان کے ستون کھڑے تھے مگر عمارت کی چھتیں ناپید ہو چکی تھیں ۔اِنہی ستونوں والے فدان کے قدیم بانیوں کو بعد کے باشندگانِ ارم سے ممتاز کرنے کے لئے ارم ذات العماد کہا جاتا تھا۔ ثمود کے مقام کا ذکر ہو چکا ہے، تبوک کی وادی القریٰ میں وہ پہاڑیاں ہیں جن کو تراش کر اُنہوں نے بیوتِ مسکونہ بنا رکھا تھا۔ اوتاد الأرض پہاڑوں کو کہتے تھے۔ قرآن میں ہے:والجبال أوتادًا وادی سینا کے کئی ایک پہاڑوں پر چوتھے خانوادہ اور بارہویں خانوادہ کی تحریر یں پائی گئی ہیں ۔ یہ پہاڑ اوتادِ فرعون ہے اور ان