کتاب: محدث شمارہ 338 - صفحہ 26
مفسرین کی روایت کے (مطابق) الفجرسے ذی الحجہ کی پہلی فجر مراد ہے اور لیال عشر سے ذی الحجہ کی دس راتیں مراد ہیں ، اس لیے واللیل سے بھی ذی الحجہ کی یہی ایک مخصوص سحر مراد ہے۔چونکہ جن روایتوں پریہ تصریح مبنی ہے، وہ اَدھوری روایتیں ہیں ، اس لیے یہ تصریح پورا مطلب سمجھانے سے قاصر ہے۔ سامع اوّل بلفظ ِدیگر مخاطب ِاوّل اسی قوم کا ایک فرد تھا جس کو سورہ صافات میں قومِ لوط کی تباہی کی خبر دے کر اللہ نے فرمایا کہ’’ یقینا تم لوگ ان کے پاس گذرا کرتے ہو صبح کو اور رات کو، پھر کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے۔‘‘ (الصافات:۱۳۷، ۱۳۸) سامع اوّل ایک ذوحجر تھا۔عقل سے کام لیتا تھا۔الفجرسے اس سامع کی ایک مخصوص فجر اور واللیل إذا یسر سے اس کی ایک مخصوص سحر اور لیال عشر سے اسی کی دس راتیں مراد ہیں ۔ جوالمؤتکفۃ کے پاس سے گذریں ۔اب روایتی تفسیر کو ملا کر یوں کہئے کہ ذوالحجہ کی پہلی فجر، پھر ذوالحجہ کی دس راتیں یعنی ۲ تا ۱۱ ذوالحجہ اوراس ذی الحجہ کی گیارہویں سحر مراد ہے جو المؤتکفۃ کے پاس اس ذوحجر نے سورہ کے سماع سے پہلے گذاری تھیں ۔ الشفع اور الوترکا ٹھیک مطلب سمجھنے کے لئے سبا:۴۶ میں پڑھئے:﴿ أنْ تَقُوْمُوْا ﷲِ مَثْنٰی وَفُرَادٰی ثُمَّ تَتَفَکَّرُوْا﴾’’خدا کے لئے اُٹھو تم لوگ دو دو اور ایک ایک پھر غور کرو‘‘ ، عرب کسی اہم بات پر غور وفکر کر کے کچھ طے کرنا چاہتے توپہلے ایک ایک شخص تنہائی میں الگ الگ سوچتا پھر دو دو مل کر تبادلۂ خیال کرتے، پھر جماعت میں سوچی بچاری تجویز پیش کرتے تھے۔ اب ہم ذوحجر کی بابت فیصلہ کر سکتے ہیں کہ وہ ذوالحجہ کی پہلی فجر المؤتکفۃ کے پاس پہنچا۔ دس راتیں وہاں قیام پذیر رہا۔ گیارہویں سحر کو کوچ کیا۔ ایامِ قیام اس نے دو کی جوڑی کو اُلٹی پلٹی بستی کے آثار کی شہادتوں پر سرگرم گفتگو پایا، پھراِکلوتے سے اس کو آثارِ باقیہ کی گواہیاں معلوم ہوئیں ۔ اسے معلوم ہوا کہ یہاں اس کے ورود کے وقت یعنی صبح سویرے اس شہر پر اللہ کا عذاب نازل ہوا۔(القمر:۳۸) اوراس کی روانگی کے وقت یعنی فجر سے پہلے آخر شب میں اللہ نے لوط اور آلِ لوط کو عذاب سے بچا لیا تھا۔(القمر:۳۴) یہ ذوحجر اپنی آنکھوں سے المؤتفکۃ