کتاب: محدث شمارہ 338 - صفحہ 25
میں اللہ نے فرمایا: ﴿وَالْفَجْرِ٭ وَلَیَالٍ عَشْرٍ٭ وَالشَّفْعِ وَالْوَتْرِ٭ وَالَّیْلِ إِذَا یَسْرِ ﴾ (الفجر:۱تا۴) ’’فجر کا وقت اور دس راتیں اور دو کی جوڑی اور ایک اکلوتا اوررات گواہ ہے جب گذری تھی۔‘‘ تین اوقات واَزمنہ اور دو کی جوڑی اور ایک اکلوتے کو اللہ نے قسم کے پیرایہ میں ایک حقیقت کے گواہ قرار دے کر وہ حقیقت خود بیان فرمانے کے بدلے یہ سوال کیا : ﴿ہَلْ فِیْ ذٰلِکَ قَسَمٌ لِّذِیْ حِجْرٍ﴾ (الفجر:۵) ’’کیا اس میں کسی صاحب ِخرد کے لئے کوئی قسم ہے۔‘‘ مخاطب ان آیتوں کا ایک ذوحجر ہے۔لفظ حِجر کا ترجمہ اس جگہ دانش یا خرد کیا جاتا ہے، حجرکا لفظ اس آیت کے علاوہ اور آیتوں میں بھی آیا ہے۔ پندرہویں سورہ میں الحجر ایک شہر کا نام ہے، جہاں کے باشندے پہاڑوں کو تراش کر اُنہیں بیوتِ مسکونہ بناتے تھے۔ (الحجر:۸۲)یہ نام حَجَر بفتحتین (پتھر)سے ماخوذ ہے۔ الانعام:۱۳۸ میں حرام کے معنی میں آیا ہے۔ الفرقان :۲۲ میں ہے کہ عذاب کے فرشتوں کو دیکھ کر ظالم چیخ اُٹھیں گے کہ﴿حِجْرًا مَّحْجُوْرًا﴾ جس کاٹھیک مطلب یہ ہے: رو کیے ان کو روکیے۔ الفرقان:۵۳ میں حجرا محجورا کالفظ حاضر وحاجب یعنی ایک دریا کے پانی کو دوسرے دریا کے پانی سے باوجود اتصال الگ الگ رکھنے والی توانائی کے لئے یہ لفظ آیا ہے۔حجر علیہ القاضي کے معنی ہیں کہ قاضی نے اسے شے کے استعمال سے روک دیا۔حجر اس دانش کا نام ہے جو قاضی بن کر انسان کو ناروا کام سے روکتی ہے۔ ذوحجر کی جمع أولی النہی ہے یعنی بدی سے روکنے والی عقلوں والے، سورہ کا مخاطب طہٰ:۱۳۸ کے أولی النہی میں سے ایک ہے۔جو اقوامِ بائدہ کے مساکین کی سیر کیا کرتے تھے یعنی تجارتی اَغراض سے عاد، ثمود، فرعون اور قومِ لوط کے دیار میں آیا جایا کرتے تھے۔ سورہ کا پہلا سامع اُنہیں میں سے ایک تھا۔ اس لئے کیوں نہ باور کیا جائے کہ آیت نمبر۵ کے مخاطب ِاوّل حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ہی ہیں ۔ خدا نے وفجر اور ولیل نہیں فرمایا بلکہ والفجر اور واللیل فرمایا ہے۔ اس سے ظاہر ہے کہ ایک مخصوص فجر اور ایک مخصوص رات کا پچھلا پہر مراد ہے جس سے مخاطب ِاوّل واقف تھا۔