کتاب: محدث شمارہ 338 - صفحہ 23
مدثر میں دوزخیوں کی زبان سے کہی کہ ﴿ وَلَمْ نَکُ نُطْعِمُ الْمِسْکِیْنَ﴾ (المدثر:۴۴)’’ اورہم مسکین کو نہیں کھلاتے تھے۔‘‘ اِطعامِ مسکین کے ترک پر ملامت تو اسے کی جاسکتی ہے جس کو اس کی استطاعت ہو، لیکن اِطعامِ مسکین کی ترغیب کا ترک پوری قوم کا مشترکہ گناہ تھا۔اس گناہ پر ملامت سورہ فجر اور سورہ ماعون میں وارد ہے۔ آئندہ چل کر سورہ الدہر میں مسلمانوں کا وصف بتایا کہ ﴿ وَیُطْعِمُوْنَ الطَّعَام عَلٰی حُبِّہٖ مِسْکِیْنًا وَّیَتِیْمًا وَّأَسِیْرًا ﴾ (الدہر:۸) ’’اورکھانا کھلاتے ہیں اس کی محبت میں مسکین کو اور یتیم کو اور اسیر کو۔‘‘ ہمارے جدید ماہرین معیشت جس نظام کی محبت میں وارفتہ ہو کر ربا کے اسلامی احکام کے متعلق اصلاحات کے درپے نظر آتے ہیں ، اس کی برکت یہ ہے کہ اطعامِ مسکین کو ملک میں اضافۂ مساکین اور مفت خوروں کی تعداد بڑھانا خیال کیا جاتا ہے۔مساکین کا حق مار لینے والوں کی ملامت تو نہیں کی جاتی، مساکین کی خوردو نوش کا انتظام کیے بغیر بھیک مانگنے کو جرم قرار دیاجاتا ہے ۔یورپ کی حکومتوں نے تو اپنے فرائض میں داخل کر لیا ہے کہ ہرشخص کو جو ہٹا کٹا ہے، کام دیا جائے تاکہ وہ محنت کر کے اپنا پیٹ بھرے اور جو نکما ہو جائے اس کو حکومت جینے کاسہارا دے مگر بھارت اورپاکستان کی حکومتیں یورپ کے اس اُصول کو تومانتی ہیں کہ محصول پر محصول لگاؤ، کاروبار کے ہر مرحلہ پر ٹیکس وصول کرو کہ دھیلے کی چیز جب صارف کے پاس پہنچے تو وہ اپنے پانچ دن کی مزدوری دے کر اسے خریدے اور ۸۵ فیصد سے زیادہ رقم حکومت کی تجوری میں پہنچ جائے تاکہ دو منٹ کے کام کو دو برس کے لیت ولعل اور ہیرا پھیری کر کے انجام دینے والے سرکاری نوکروں کو اس اِسرافِ وقت کا انعام ہزاروں کی توڑی کی شکل میں دیا جا سکے، لیکن محتاج کی روزی کا انتظام کرنا اپنے فر ائض میں داخل نہیں کیا۔ بھارت کے پاس تو کسی عمر رضی اللہ عنہ کی نظیر نہیں ہے مگر خلافت راشدہ کے معترضین حضرات کے پاس تو یہ نظیر موجود ہے، پھر بھی بس اتنا جانتے ہیں کہ (نعوذ بااﷲ) ہر خلیفہ جبار عنید ہی ہوتا تھا اس لیے پاکستانی حکومت کو جبار عنیدہی کی حکومت ہونی چاہیے۔ مگر یہ نہیں جانتے کہ﴿وَلَا یَحُضُّ عَلٰی طَعَامِ الْمِسْکِینِ﴾ کاالزام پاکستان کی ’خلافت ِراشدہ‘ پر بھی پوری