کتاب: محدث شمارہ 338 - صفحہ 22
﴿إِنَّ الْمُبَذِّرِیْنَ کَا نُوْا إِخْوَانَ الشَّیٰطِیْنِ﴾ (بنی اسرائیل:۲۷) ’’یقینا فضول خرچ لوگ شیطان کے بھائی ہیں ۔‘‘ عرب کی فیاضیاں مستحقین کے لئے نہ تھیں ۔ نام ونمود کے مواقع پر، ہم رتبہ مہمانوں کی ضیافت میں ، شراب کی مجلسوں میں ، قمار بازی کے مواقع پر اپنے ہم خاندان یا دوست خونی کی طرف سے دیت دے کراس کو سزا سے بچانے میں ، غرض مصارفِ بے جا میں وہ بڑی بے دردی سے دولت پھونک دیتے تھے، لیکن ضعیفوں ،اپاہجوں ،مسکینوں اوریتیموں کی امداد کو نہ صرف یہ کہ ضروری نہیں خیال کیا جاتا تھا بلکہ اس کو اللہ کی مرضی کے خلاف جنگ باور کیا جاتاتھا: ﴿وَإِذَا قِیْلَ لَہُمْ اَنْفِقُوْا مِمَّا رَزَقَکُمْ اﷲ ُقَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لِلَّذِیْنَ آمَنُوْا اَنُطْعِمُ مَنْ لَّوْ یَشَائُ اﷲ أَطعَمَہُ إِنْ أَنْتُمْ إِلَّا فِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ﴾ (یٰسٓ:۴۷) ’’اور ان سے جب کہاجاتا تھا کہ اللہ نے تم کو جو روزی دی ہے، اس میں کچھ نفقہ دیاکرو تو ان میں سے جو کافرہیں ، مؤمنوں سے کہتے ہیں کہ کیا ہم اس کو کھلائیں ، جس کو اللہ چاہتا تو کھلاتا۔ تم لوگ نہیں ہو مگر کھلی گمراہی میں ۔‘‘ خوش حالوں کو کھلانا،پلانا اور ان کی ضیافتوں میں اپنے آپ کو برباد کر دینا تو بڑا نیک کام باور کیا جاتا تھا، لیکن جہاں تک محتاجوں کا تعلق تھا، عربوں کا کہنا یہ تھا کہ جسے مولیٰ نہیں دیتا اسے آصف الدولہ کیوں دے۔ جسے دیا گیا اسے اور دیا جائے گا اور جس کو نہیں دیا گیا اس کے پاس جتنا ہو، اسے بھی لے لیا جائے گا۔ جس کی تو ند بھری ہے اس کی ٹھلیا بھری رہنی چاہیے اور جس کی ہانڈی میں چاول نہیں ، اس کو خالی پیٹ ہی مرنا چاہیے۔ یہ تھا عرب کی اقتصادی زندگی کا اُصول۔ موجودہ اقتصادی نظام کے وکیل انکار کریں گے کہ ہمارا یہ اُصول نہیں ہے مگر اس نظام کی بھی حقیقی روح تو یہی ہے کہ بھری توند کو اور بھرو، اورخالی پیٹوں سے ان کے کشکول بھی چھین لو۔ چونکہ عربوں کی معاشی زندگی حقیقی فیاضی سے خالی تھی، اس لیے بالکل ہی ابتدا میں اللہ نے اِطعامِ مسکین کے لئے لوگوں کو ترغیب دینا واجب کیا۔یہ بات بھی خاص طور پر قابل ذکر ہے کہ ابتدا میں منکرِ خدا پر یہ الزام نہیں لگایا کہ وہ مسکین کو کھلاتا نہیں تھا، یہ بات آئندہ چل کر سورہ