کتاب: محدث شمارہ 338 - صفحہ 21
کتاب وحکمت مولانا ابو الجلال ندوی رحمہ اللہ ، کراچی دوسری قسط حب ِمال اور قرآنی دعوت نُزولِ قرآن کے تناظر میں اِطعام مسکین حب ِمال، جمع مال، تکاثر اور دولت کو معیارِ توقیر بنانے کے خلاف وعظ و پند کے بعد اللہ نے عربوں کے مالی نظام کی اِصلاح کی خاطر سورہ حاقہ میں ایک جہنمی کے جہنمی ہونے کی وجہ یہ بتائی: ﴿إِنَّہٗ کَانَ لَا یُؤْمِنُ بِاﷲِ الْعَظِیْمِ٭ وَلَا یَحُضُّ عَلٰی طَعَامِ الْمِسْکِیْنِ ﴾ (الحاقہ:۳۳،۳۴) ’’وہ عظیم شان والے اللہ پر ایمان نہیں رکھتا اورمسکین کو کھلانے کی تحریک نہیں کرتا۔‘‘ اگر آپ نے عربی کے خصوصاً اَیام جاہلیت کے اَشعار پڑھے ہیں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ عرب سے زیادہ فیاض شاید دنیا میں کوئی قوم رہی ہو ، اس قوم کے پڑوسیوں کی شہادتیں بھی اس کی تائید کرتی ہیں ، لیکن آپ کو حیرت ہو گی کہ جس قوم کے حاتم کا دنیا بھر میں چرچا ہے، اسی قوم کی بابت قرآن میں بتایا گیا ہے کہ ﴿اَلَّذِیْنَ یَبْخَلُوْنَ وَیَاَمُرُوْنَ النَّاسَ بِالْبُخْلِ﴾(النسائ:۳۷، الحدید:۲۴) ’’کنجوسی سے کام لیتے ہیں اور لوگوں کوکنجوسی کا حکم دیتے ہیں ۔‘‘ قرآنِ کریم میں اگر فیاضی کا ذکر ہے تو ان کی فیاضی کا جومسلمان ہو جانے کی وجہ سے جن کی زندگی بدل گئی تھی۔ اس لیے سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اَشعارِ عرب محض لغو ہیں ؟ کیا مصر، روما اور ایران کی گواہیاں جھوٹی ہیں ؟ کیا حاتم واقعی محض افسانہ تھا؟ نہیں ، افسانہ نہیں تھا، کیونکہ جس قوم پر بخل کا الزام لگایا گیا ہے، اسی قوم کو تبذیر سے منع کرتے ہوئے یہ بھی فرمایا گیا ہے کہ