کتاب: محدث شمارہ 338 - صفحہ 20
آشکارا کررہے ہیں ۔ اہل مغرب کو اپنی خود ساختہ وسعت نظری کو تنگ نظری اور روشن خیالی کو بنیاد پرستی میں بدلنا پڑ رہا ہے۔ اللہ نے انسان کو چلنے کا جو متوازن نظام دیا ہے، اس سے آگے بڑھ کر انسان اپنے خود ساختہ نظام کامیاب نہیں کرسکتا۔ یہ بات پوری طرح واضح ہوچکی ہے کہ اسلام کو تشدد و جارحیت کا طعنہ دینے والے دراصل خود سب سے بڑے انتہاپسند اور شدت پسند ہیں ۔ گذشتہ دس برسوں میں یورپ اور امریکہ نے لگاتار اس پر کئی واقعاتی دلائل مہیا کردیے ہیں : نبی اسلام محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ، کتاب ِاسلام یعنی قرآنِ مجید اور مرکز ِاسلام یعنی مساجد اور اسلامی شعائر نقاب وحجاب اور مسلم ہستی کوالزامات کا نشانۂ امتیاز بنانے جیسے اقدامات کے ذریعے اہل مغرب نے اپنی عدمِ رواداری کے اَن گنت ثبوت فراہم کردیے ہیں ـ۔ جبکہ مغرب کا انتہا پسند میڈیا اسلام اور اس کے ماننے والوں کو ہزار الزامات سے متہم کرے او راُنہیں عدم رواداری کا طعنہ دے کر دہشت گرد قرار دیتا ہوا نہ تھکے، لیکن گذشتہ ۱۰ برسوں کی تاریخ شاہد ِعدل ہے کہ مسلمانوں نے کسی نبی تو کجا، کسی مقدس ومحترم مذہبی شعار کی پامالی کی جسارت بھی نہیں کی۔ حجاب و نقاب اور اسلامی شعائر کے خلاف ہر آن بڑھتی جارحیت میں اہل عبرت کے لئے بہت سی نشانیاں موجود ہیں جس کے حل کیلئے مربوط حکمتِ عملی ضروری ہے، لیکن ایسے جارحانہ اقدامات سے اہل مغرب کی خودساختہ رواداری کا بھرم بیچ چوراہے میں پھوٹ چکا ہے اور ان کا اسلام سے شدید خوف ہرایک کو نظر آرہا ہے۔یورپ کا قومی ریاستوں کا تصور آخرکار غلط ثابت ہورہا ہے جس میں بسنے والوں کو مکمل مذہبی آزادی میسر ہو اور اسلام کی حقانیت یہ ثابت کر رہی ہے کہ زمین و وطن کے بجائے ایک نظریات کے ماننے والوں پرہی حقیقی قوم استوار ہوتی ہے۔ یورپ کے مسلمان دنیوی مفادات کے لئے، یورپی قوانین پر بھروسہ کرتے اور اُنہیں اپنی مذہبی آزادی کا ضامن خیال کرتے ہوئے یورپ میں سکونت بے شک اختیار کریں ،لیکن اُنہیں بخوبی جان لینا چاہئے کہ اسلام اور اہل یورپ کا تعصب دریا کے دو ایسے کنارے ہیں جو کبھی نہیں مل سکتے۔ دونوں ملتیں کبھی ایک دوسرے میں جذب نہیں ہوسکتیں ۔دونوں کے مابین عقیدے اور نظریے کا جو بعد ہے، اس کا اظہار ہوکر رہنا ہے؛ چاہے اس میں کتنی ہی تاخیر ہی کیوں نہ ہوجائے!! (ڈاکٹر حافظ حسن مدنی)